کے لیے کبھی تو خود آئمہ سلف کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور کبھی اِستدراکات صحابہ کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصول درایت کاحوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نہ تو حضرات صحابہ کرام کو درایت کے اس عقلی منہج کے ساتھ کوئی علاقہ ہے اور نہ ہی محدثین عظام رحمہم اللہ کو اس غلط تصور کے ساتھ کوئی واسطہ، کیونکہ جب عربی زبان میں لفظ درایت عقل کے معنیٰ میں مستعمل ہی نہیں تو درایت حدیث کے نام پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوعقل یا عقل عام کے خلاف کہہ کر رد کردینے کا اصول بے جا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم محدثین کرام رحمہم اللہ کی طرف منسوب ان چند اقوال کی وضاحت پیش کریں گے کہ جنہیں’اہل درایت‘ نے اپنے موقف کے اثبات کے لیے بطور حوالہ ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں ہم وضاحت کریں گے کہ ان اقوال کی نوعیت کیا ہے؟ اور محدثین کرام رحمہم اللہ کس قسم کی متنی تحقیق کے قائل ہیں؟ نقد روایت کے درایتی تصور کے اثبات کے لیے عام طور پر درج ذیل محدثین کرام رحمہم اللہ کو سرفہرست ذکر کیا جاتا ہے: 1۔خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفیٰ 463ھ) 2۔عثمان بن عبدالرحمن بن الصلاح رحمہ اللہ ( متوفیٰ 643 ھ) 3۔ابن دقیق العید رحمہ اللہ ( متوفیٰ 702 ھ) 4۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751 ھ) 5۔ علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 963 ھ) 6۔عمر بن بدر حنفی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 622 ھ) 7۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ ( متوفیٰ 1014 ھ) 8۔شمس الدین محمد سخاوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 902 ھ) 9۔ابن الجوزی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 597ھ) اِمام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا موقف محدثین کرام رحمہم اللہ میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ کامقام آئمہ کی صف میں ہوتا ہے۔ ’درایت‘ کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے خطیب بغدادی رحمہ اللہ اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ میں لکھتے ہیں: ’’وإذا روی الثقة المأمون خبرا متصل الإسناد رد بأمور: أحدها أن یخالف موجبات العقول فیعلم بطلانه لأن الشرع إنما یرد بمجوزات العقول وأما بخلاف العقول فلا. والثاني أن یخالف نص الکتاب أو السنة المتواترة فیعلم أنه لا أصل له أو منسوخ. والثالث أن یخالف الإجماع فیستدل على أنه منسوخ أو لا أصل له لأنه لایجوز أن یکون صحیحا غیر منسوخ وتجمع الأمة على خلافه والرابع أن ینفرد الواحد بروایة ما یجف على کافة الخلق علمه فیدل ذالك على أنه لا أصل له لأنه لا یجوز أن یکون له أصل وینفرد هو بعلمه من بین الخلق العظیم. والخامس أن ینفرد بروایة ما جرت العادة بأن ینقله أهل التواتر فلا یقبل لأنه لا یجوز أن ینفرد في مثل هذا بالروایة. ‘‘ [1] |