Maktaba Wahhabi

65 - 117
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت میں اسے ملکہ حاصل ہو ، اسے علم ہو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز کا حکم دیتے ہیں اور کس سے روکتے ہیں ، کس کی ترغیب دیتے ہیں اور کس سے ڈراتے ہیں ، کسے پسند کرتے ہیں اور کسے ناپسند کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ الفاظِ حدیث کے ذریعے وضعِ حدیث کا حکم لگانا صرف اسی کا کام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں تتبع کرنے اور ان میں سے صحیح کو غیر صحیح سے ممتاز کرنے کا حریص ہو ،جیسا کہ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔ [1] اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ صرف اسی کا کام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی جستجو میں بہت زیادہ کوشاں ہو اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسروں کے الفاظ کی پہچان میں مہارت حاصل ہو ۔[2] اِمام بلقینی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 805ھ)نے بھی یہی بات یوں فرماتے ہیں: ’’ نقادِ حدیث میں ایک خاص قسم کا ملکہ پیدا ہو چکا ہوتا ہےكہ جس کی وجہ سے وہ موضوع حدیث کو پہچان لیتے ہیں۔ اس کی مثال ا یسے ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی انسان کی کئی سال خدمت کرے تو اسے اس کی پسند اور ناپسند کا علم ہو جاتا ہے ، پھر اگر کوئی دوسرا شخص آ کر یہ دعویٰ کرے کہ اسے فلاں چیز سے نفرت ہے تو خادم اس کی بات کی طرف توجہ نہیں کرتا کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا مالک اسے پسند کرتا ہے ۔ یعنی مجرد سماع سے ہی اسے اس بات کا جھوٹ پتہ چل جاتا ہے (یہی حال نقادِ حدیث کا بھی ہے کہ انہیں مجرد سماع سے ہی حدیث کے موضوع ومن گھڑت ہونے کا علم ہو جاتا ہے ) ۔‘‘ [3] اس کے برعکس بعض معاصر اسکالرز حضرات عقلی درایتی اصولوں کی روشنی میں محدثین کی روایات کو ضعیف اور موضوع قرار دے رہے ہیں حالانکہ وہ تمام محدثین کہ جن کے حوالے سے یہ درایتی اصول نقل کیے جاتے ہیں۔ صحیحین کی روایات کی صحت پر متفق ہیں تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ مذکورہ بالا محدثین کی ان عبارتوں کو اس معنیٰ میں بھی لےلیا جائے کہ جس معنیٰ میں بعض معاصر اسکالرز لیتے ہیں تو پھر بھی ان اسکالرز حضرات کو یہ حق کم ازکم نہیں پہنچتا ہے کہ وہ ان محدثین کے انہی درایتی اصولوں کی روشنی میں ان روایات کو مردود قرار دیں کہ جو انہی محدثین کے نزدیک قبولیت کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ ضعف حدیث میں علامت اور علت کا فرق واضح رہے کہ حدیث میں متن کی ’درایت‘سے متعلق محدثین کرام کے جو اقوال اوپر ذکر کیے گئے ہیں ان کا
Flag Counter