Maktaba Wahhabi

53 - 117
لیکن بحیثیت مجتہد اس کا کام استنباط مسائل ہے اور تنقید حدیث میں وہ محدثین کی خدمت کی وجہ سے بے فکر ہوسکتا ہے۔‘‘ [1] صاحب تلویح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’البحث عن أحوال الرواة في زماننا هذا کالمتعذر بطول المدة وکثرة الوسائط فالأولى الاکتفاء بتعدیل الأئمة الموثوق بهم في علم الحدیث کالبخاری والمسلم والبغوی الصنعاني وغیرهم من أئمة الحدیث. ‘‘ [2] ’’ہمارے زمانے میں راویان حدیث کے حالات سے بحث کرنا طول مدت کی وجہ سے گویا مشکل ہے۔ پس بہتر یہ ہے کہ ائمہ حدیث جوفن حدیث میں معتبر ہیں انہی کی تنقید اور تعدیل پر کفایت کی جائے جیسے امام بخاری رحمہ اللہ (متوفیٰ 256ھ)، امام مسلم رحمہ اللہ ( متوفیٰ 261ھ)اور امام بغوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 516ھ) وغیرہ۔‘‘ یہ کہہ کر مجتہد کا من حیث المجتہد فن حدیث میں دخل اتنا بتلاتے ہیں: ’’لا یخفى أن المراد معرفة متن الحدیث بمعانیه لغة وشرعا وبأقسامه من الخاص والعام وغیرها‘‘ [3] ’’الفاظ حدیث کواس کے معانی کے ساتھ جاننا اور اس کی اقسام، خاص، عام وغیرہ کو معلوم کرنا مجتہد کا فرض ہے۔‘‘ اِمام اعمش رحمہ اللہ ( متوفیٰ 148ھ)نے فقہ اور حدیث کے دائرہ فنون کا تعین کرتے ہوئے کیا ہی اچھی بات کی ہے۔ ان کا یہ قول امام ابن عبد البر رحمہ اللہ ( متوفیٰ 463ھ)نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’أنتم الأطباء ونحن الصیادلة. ‘‘ [4] ’’اے فقہاے کرام !آپ طبیب ہیں اور ہم (محدثین) عطار ہیں۔‘‘ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اِمام اعمش رحمہ اللہ کے مذکورہ قول پر انتہائی متوازن تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’محدثین کا کام اچھی دوائیں جمع کرنا اور فقہاءکا کام دواؤں کی چانچ پڑتال کرکے ان کو بر محل منطبق کرنا ہے۔‘‘ [5] دونوں علوم میں پائے جانے والے واضح فرق کے باوجود دونوں فنون میں چولی دامن کا ساتھ بھی ہے اور دونوں فنون کے ماہرین ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں رواۃ میں سے نہ سب فقہا ہیں اور نہ سب فقہا فن حدیث کے ماہر! چنانچہ اگر یہ
Flag Counter