اس کے حجت ہونے کا قطعی لازمہ یہ نہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ بشمول اِمام احمد رحمہ اللہ کے’ اجتہاد صحابی‘ کو حدیث کے قبیل سے سمجھتے ہوئے شریعت سمجھتے ہیں۔ شرائط قبول حدیث کے اعتبار سے فرق فقہ حدیث اور فن فقہ میں کسی حدیث کے مقبول ہونے کی شرائط کے اعتبار سے بھی فرق پایا جاتا ہے۔ فن حدیث میں عام اہل علم کے ہاں کسی حدیث کے مقبول ہونے کے لیے راوی کے بارے دو شرطیں بنیادی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ شخصیت کے حوالے سے باکردار ہو۔ فن حدیث کی اصطلاح میں راوی کے اس وصف کو ’عدالت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ راوی سے متعلق دوسری شرط یہ ہے کہ خبر کے نقل کرنے کے سلسلہ میں وہ باصلاحیت ہو۔ فن حدیث کی رو سے باصلاحیت راوی کو’ ضابط‘ کہا جاتا ہے۔ اصول حدیث کی کتب میں خبر مقبول کے لیے محدثین کرام رحمہم اللہ نے صرف انہی دو صفات پر اکتفاء کیا ہے۔[1] مزید برآں انہی دو صفات کے حامل راوی پر محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ’ثقہ ‘ کی اصطلاح بولی جاتی ہے۔[2] اسی وجہ سے محدثین رحمہم اللہ نے اپنی کتب کے شروع ہی میں المسنِدکی اصطلاح کی ضمن میں راوی کے لیے متعین فرما دیا ہے کہ اسے مروی کے مفہوم پر عبور ہونا قطعی ضروری نہیں۔ [3] اس کے بالمقابل فن فقہ کا موضوع چونکہ فہم روایت اور حدیث سے استنباط واستخراج ہے، جس کے لیے متعلقہ شخص کا صاحب صلاحیت ہونا ایک لازمی وصف ہے، چنانچہ مجتہد وفقیہ کی لازمی سی بات ہے کہ اس میں صلاحیت تفقہ بدرجہ اتم موجود ہو، جیساکہ بعض اصولیوں نے مجتہد کی شرائط میں یہ شرط بھی عائد کی ہو کہ اس میں اجتہاد کا فطری ملکہ بھی ہونا چاہیے۔ [4] المختصر یہ بات چوں کہ علم الروایہ اور علم الحدیث کے حوالے سے کسی طرح بھی معقول نہیں کہ راوی کے باصلاحیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تفقّہ کی صلاحیت بھی ہو، چنانچہ جن علماء نے تحقیق روایت کے لیے راوی سے متعلق ’فقیہ ہونے ‘ کی شرط کا اضافہ کیا ہے، وہ غیر معقول اور فن حدیث میں غیر مقبول ہے۔[5] عین اسی طرح جو لوگ ائمہ مجتہدین کے لیے ان کے ضابط ہونے کو وصف اجتہاد کا لازمہ سمجھتے ہیں، وہ بھی مکمل غلطی پر |