Maktaba Wahhabi

50 - 117
1176ھ)نے اپنے وصیت نامے میں اسی بات کو پسند کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ’’ میں اپنے جانشینوں کو فقہائے محدثین کے طریق کار کی نصیحت کرتاہوں۔‘‘ [1] قبول و ردکے اعتبار سے فرق فن حدیث اورفن فقہ میں کسی حدیث کے قبول ورد کے اعتبار سے بھی واضح فرق پایا جاتا ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ایک مثال ’حدیث مرسل‘ کی ہے، جو کہ بالاتفاق محدثین رحمہم اللہ ضعیف ہوتی ہے،[2] البتہ آئمہ اربعہ سمیت جمہور فقہاء رحمہم اللہ کے ہاں اس سے مشروط یا غیر مشروط پر استدلال کیاجاسکتا ہے،[3] اس لیے فن فقہ میں ’حدیث مرسل‘ کو بطور استدلال قبول کیا جائے گا، لیکن فن حدیث میں استنادی اعتبار سے اس کے منقطع السند ہونے کی وجہ سے یہ روایت خبر مردود ہی میں شامل رہے گی۔ اس بات کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 150ھ) کے حوالے سے کتب اصول میں موجود ہے کہ فن فقہ میں وہ قیاس کے بالمقابل ضعیف حدیث کو ترجیح دیتے تھے۔اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751ھ) لکھتے ہیں: ’’وأصحاب أبي حنیفة مجمعون على أن ضعیف الحدیث مقدم على القیاس والرأي وعلى ذلك بنی مذهبه رحمہ اللّٰہ. ‘‘ [4] ’’اصحاب أبی حنیفہ رحمہ اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس اور رائے پر مقدم کیا جائے گا اور اسی اصول پر مذہب حنفی کی بنیاد ہے۔‘‘ لیکن فن حدیث میں کوئی اِمام یا محدث ایسا نہیں جو یہ دعوی کرے کہ ’قیاس ‘کے بالمقابل ضعیف روایت سے جب اِمام صاحب استدلال کرتے ہیں تواسے ثبوت کے اعتبار سے صحیح بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح اجتہاد اور اجماع سے متعلقہ تمام ضعیف روایات سے فقہاء کرام رحمہم اللہ کا مسئلہ اجتہاد یا اجماع کو ثابت کرنے کا قطعی لازمہ نہیں ہے کہ محدثین عظام رحمہم اللہ کے ہاں اب یہ روایات بطور نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت قرار پا چکی ہیں۔ فن فقہ اور فن حدیث میں قبول و رد کے اعتبار سے فرق کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ میں سے اِمام احمد رحمہ اللہ ( متوفیٰ 241ھ) اور اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ( متوفیٰ 150ھ)کے ہاں قول صحابی حجت ہے،[5] لیکن
Flag Counter