اعتبار سے بھی نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں کسی ضعیف روایت کے مفہوم پر فقہاء رحمہم اللہ کے اجماع کا قطعی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ثابت ہو جاتی ہے، بلکہ روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے توخبر وروایت سے ہی شواہد اور توابع پیش کرنے پڑیں گے۔ اسی لیے محدثین رحمہم اللہ کے ہاں جو ضعیف روایت شواہد اور توابع کی وجہ سے درجہ حسن کو پہنچے ، اسے حسن لغیرہ اورجو حسن روایت شواہد وتوابع کی وجہ سے درجہ صحیح کو پہنچے تو اسے صحیح لغیرہ کہا جاتا ہے۔ جبکہ خبر کے علاوہ دیگر ذرائع(مثلاً اجماع یا تعامل وغیرہ) سے روایت کے مفہوم صحیح ہونے کو ’سنداً ضعیف مفہوماً صحیح‘ کی متوازی اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے۔[1] ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ضعیف روایت پر امت کا اجماع بھی اسے ثبوت میں صحیح نہیں بنا سکتا، البتہ اس روایت کے مفہوم کو قطعی ضرور بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سند کے اعتبار سے صحیح خبر واحد پر فقہاء کرام رحمہم اللہ کے اجماع یا اس روایت پر امت کا بلا اختلاف تعامل، جسے اصلاحی مکتبہ فکر کے حاملین تواتر عملی کا نام دیتے ہیں[2] یا زمانہ خیر القرون میں اس کا مشہور ہونا،جسے علماے احناف خبر مشہور کہتے ہیں،وغیرہ اُمور سے نفس حدیث کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت میں ثبوت کی قوت کے اعتبار سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا، البتہ مفہوم روایت میں بسا اوقات ضرور قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ ثبوت ودلالت کے اعتبار سے فرق فن فقہ اور فن حدیث میں ایک نمایاں فرق ان کے موضوع کی نسبت سے قطعیت وظنیت کا بھی ہے۔ علم فقہ کا موضوع چونکہ دلالات ہیں،چنانچہ یہاں بحث قطعی الدلالت یا ظنی الدلالت سے ہوتی ہے۔ جبکہ علم الحدیث کا موضوع ثبوت واقعہ ہے، اس لیے اس میں بحث روایت کے قطعی الثبوت یا ظنی الثبوت کے بارے میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فن حدیث کے پہلو سے کسی روایت کے قطعی الثبوت ہونے کا کوئی تعلق،استدلالی پہلو سے روایت کے قطعی الدلالت ہونے سے نہیں ہے، کیونکہ دو مختلف فنون کی اصطلاحات ہونے کے اعتبار سے ان کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں۔ جیساکہ قرآن مجید کی تفسیرمیں مفسرین کرام کا کتنا اختلاف کتب تفاسیر میں موجود ہے، باوجودیکہ قرآن مجید اپنی روایت کے پہلو سے قطعی الثبوت ہے۔ اسی طرح متواتر روایات میں سے سبعۃ أحرف کی روایت بھی شمارکی جاتی ہے، بلکہ بعض علماء نے تو اسے متواتر لفظی کے قبیل سے شمار کیا ہے،[3] لیکن اس کے باوجود اس کے مفہوم کے بارے میں ’’الإتقان‘‘ اور ’’مناهل العرفان‘‘ وغیرہ میں اِمام سیوطی رحمہ اللہ (متوفیٰ 911ھ)اور اِمام زرقانی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 1122ھ)نے40 کے قریب اَقوال ذکر فرمائے ہیں، بلکہ ان فنون کے باہمی فرق کا عالم یہ ہے کہ بسا اوقات ایک روایت محدثین کرام رحمہم اللہ کی متفقہ رائے کے مطابق حتمی ضعیف |