Maktaba Wahhabi

44 - 117
مصنَّفات کے اعتبار سے فرق علم حدیث اور علم فقہ چونکہ اپنے موضوع کے اعتبار سے دو الگ الگ فنون ہیں، لہٰذا ان علوم وفنون سے متعلقہ کتب میں اپنے اپنے موضوع کے اعتبار سے ناموں میں بھی واضح فرق پایا جاتا ہے۔ مثلا اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 728ھ) نے علم اصول حدیث سے متعلقہ اپنی کتاب کا نام’علم الحدیث‘ ، اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ (متوفیٰ 643ھ)نے علوم الحدیث، اِمام حاکم رحمہ اللہ (متوفیٰ 405ھ) نے معرفۃ علوم الحدیث اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 463ھ)نے’’ الکفایة في علم الروایة‘‘وغیرہ رکھا ہے۔ جبکہ دوسری طرف علم فقہ سے متعلقہ تمام کتابوں کے ناموں میں ہی علم اُصول فقہ، علم اُصول اجتہاد، علم اُصول استدلال وغیرہ کی وضاحت واضح طور پر موجود ہوتی ہے۔ جیسے ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ اور حسین علی الاعظمی حفظہ اللہ کی کتابیں ’’ الوجیز في أصول الفقه‘‘، ڈاکٹر معروف الدوالیبی حفظہ اللہ کی کتاب ’’المدخل إلى أصول الفقه‘‘ اور فاضل عبد الواحد عبد الرحمن حفظہ اللہ کی کتاب ’’ النموذج في أصول الفقه‘‘وغیرہ کے نام سے واضح ہے۔ مقصود کے اعتبار سے فرق فن حدیث اور فن فقہ میں مقصود کے اعتبار سے بھی ایک واضح فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ علم حدیث کا مقصدکسی شے کو اُن اشخاص تک پہنچاکر انہیں فیض یاب کرنا ہوتا ہے جو اس شے کو براہ راست خود اخذ نہ کرسکے ہوں۔ راوی چونکہ شے کو خبر کے ذریعے آگے دوسرے شخص تک روایت کردیتا ہے، توگویا وہ اس سرمایۂ نبوت سے دوسرے شخص کو بھی سیراب کرتا ہے کہ جس سے خود مستفید ہوا ہوتا ہے، اسی لیے روایت کو روایت کہا جاتا ہے۔[1] بنابریں تحقیق روایت میں اصل مقصود متن کی تحقیق ہوتی ہے۔ اس کے بالمقابل علم الفقہ کا مقصد کسی شے سے استنباط واستدلال کرکے اس سے احکام ومسائل کا استخراج کرنا ہوتا ہے۔ [2]اسی لیے علم فقہ کا مقصد صرف یہی ہے کہ وہ روایت کا مفہوم ’نبوی اصولوں‘ کی روشنی میں واضح کرے۔ فن فقہ کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جس روایت سے فقہاء استنباط کرتے ہیں تو وہ استنباط کے پس منظر میں اس روایت کے ثبوت کی تحقیق بھی کرتے ہیں، جیساکہ اس کی تصریح خود علمائے فن نے کی ہے۔ [3] اصطلاحات کے اعتبار سے فرق فن حدیث اور فن فقہ میں اپنے اپنے میدان کار میں ماہرین فن کے ہاں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے
Flag Counter