الثبوت ہوتی ہے ، لیکن اس کا خلاصہ چونکہ دیگر روایات کی تائید حاصل ہونے کی وجہ سے مقبول ہوتا ہے، چنانچہ بعض اوقات اس کے اس مفہوم پر مجتہدین کرام کے اجماع قائم ہوجانے کے باعث اس روایت کا مفہوم ’قطعی الدلالت‘ قرار پا جاتا ہے۔ جیسے حضرت ابوبکر کاپہلا خلیفہ ہونا، عمرفاروق کا دوسرا خلیفہ ہونا، عثمان غنی کاتیسرا خلیفہ ہونا اور علی کا چوتھا خلیفہ ہونا بطور روایت یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی نسبت سے تو بالاتفاق محدثین رحمہم اللہ ثابت نہیں، البتہ اس بات کے صحیح ہونے کے قطعی شرعی دلائل کی وجہ سے علماے امت اس بات کو بالاتفاق قبول کرتے ہیں۔[1] دوسری مثال یہ ہے کہ اجتہاد سے متعلق معاذ بن جبل کی معروف روایت اوراجماع سے متعلق تمام مشہور روایات محدثین کرام کے اصولوں پر قطعی ضعیف ہیں[2] لیکن چونکہ ان روایات کا خلاصہ شریعت کے دیگر دلائل سے ثابت ہے، اس لیے تمام فقہاءاور اصولی ان روایات کو اپنی اصول فقہ کی کتب میں بڑے اہتمام سے پیش فرماتے ہیں اور ان سے اجماع اور اجتہاد کے ثبوت کو واضح کرتے ہیں۔ [3] روایت کے قبو ل و عمل کا فرق فن حدیث اورفن فقہ میں ایک اساسی فرق روایت میں قبولیت اور عمل کے معیار کا بھی ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں قبول ورد کے اعتبار سے ایک روایت کی دو اقسام ہیں: خبر مقبول اور خبر مردود۔ [4]جب ایک حدیث فن حدیث میں مقرر کردہ معیارات پرپورا اترتی ہے تو وہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں مقبول قرار پاتی ہے، جبکہ استدلال وعمل کے اعتبار سے اسی خبر مقبول کو مزید دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: [5] خبر مقبول کی پہلی قسم کو فقہاء کرام رحمہم اللہ معمول بہا مقبول روایت کا نام دیتے ہیں اور اس سے ان کی مراد ایسی روایت ہے جو قابل استدلال اور قابل عمل ہو۔ خبر مقبول کی دوسری قسم کا نام فقہاء رحمہم اللہ نے غیر معمول بہ مقبول روایت رکھا ہے اور اس سے ان کی مراد ایسی روایت ہے جوناقابل استدلال اور ناقابل عمل ہو۔[6] گویا محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں مقبول قرار پانے والی روایت علمائے استدلال کے ہاں غیر معمول بہ قرار دی |