اعتبار سے اجارہ داری تھیا کریسی کی بنیادی روح ہے جو دلیل کی بنیار پر نہیں شخصی برتری کی بنیاد پر کسی طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔یہی حال حکمرانوں کے تصور ’اختیار حقوق ربانی‘(Devine rules of Kingdom) کا ہے۔چناچہ دستور و تعبیر میں علماء کو دائمی اور عالمگیر اتھارٹی مانا جائے یا حکمرانوں اور پارلیمنٹ کو، یہ بہر حال خدائی حقوق میں دخل اندازی ہے...یہی وجہ ہے کہ أئمہ سلف نے خود کو کبھی اتھارٹی قرار نہیں دیا۔‘‘ [1] مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ ’اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ‘ کے قائلین اکثر و بیشتر وہ لوگ ہیں جو أئمہ سلف کی تقلید کے شدید مخالف ہیں لیکن یہی مفکرین ایک طرف تو أئمہ سلف کی تقلید کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے ماہرین تھے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں کہ جس کے ممبران کی اکثریت شرعی علوم کی الف با ء سے بھی واقف نہیں ہوتی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’طرفہ یہ کہ اس نظریہ کے حامل لوگ جس شدو مد سے تقلید کی مخالفت کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ شورو غوغا آرائی کے ساتھ حکومت یا پارلیمنٹ کی تعبیر و تقنین کو اتھارٹی منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ فکر ونظر کا یہ کتنا بڑا تضاد ہے؟‘‘ [2] ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ مباح امور میں نظم و نسق قائم کرنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔ وہ لکھتےہیں: ’’پارلیمنٹ کا دائرہ عمل مباح امور میں تدبیر و انتظام کی حد تک ہے! حاصل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا دائرہ کار صرف مباحات تک محدود ہے...اور اباحت کا بھی ایک پہلو چونکہ شرعی حکم ہونے کا ہے، اس لیے اس پر نگرانی کتاب و سنت کی رہنی چاہیے...جنگی تدابیر میں "أولى الأمر "کو اجازت ہے کہ وہ مشورہ کے بعد کوئی سی بھی تدبیر اختیار کر لیں۔لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے بعد اساریٰ بدر کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔‘‘ [3] وہ ساتھ میں یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ مباح امور میں قانون سازی کے وقت بھی پارلیمنٹ کو علماء کی رہنمائی حاصل ہونی چاہیے۔ ان کی تجویز کے مطابق ہمارے موجودہ نظام میں سینٹ(Senate) ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس میں علماء و فقہاء کو مناسب نمائندگی دی جا سکتی ہے اور پھر یہ ادارہ قومی اسمبلی کی مباح امور میں قانون سازی کی نگرانی اور سرپرستی کرے۔وہ لکھتے ہیں: ’’مقصد یہ ہے کہ شوریٰ یا پارلیمنٹ میں بنیادی دستور(کتاب وسنت) کے علاوہ دوسرے امور ہی زیر غور کیوں نہ ہوں،کتاب و سنت کے ماہرین کی پھر بھی ضرورت ہے۔ اس لیے اس بارے میں جن حضرات نے ارکان شوریٰ کے نمائندہ ہونے پر زور دیا ہے، تدبیری امور کی حد تک اس کی اہمیت تسلیم ہے،کیونکہ تدبیر وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں تدبیر کرنے والوں کو رعایا کا اعتماد حاصل ہو...﴿وأمرهم شوری بینهم﴾کے قرآنی حکم کا ایک |