Maktaba Wahhabi

38 - 117
’’اس مقالے میں، میں اجتہاد کے صرف پہلے درجے کے بارے میں گفتگو کروں گا جو کہ قانون سازی میں مکمل اختیار کا نام ہے۔‘‘ پس ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں پارلیمنٹ کا اجتہاد قانون سازی ہے نہ کہ قانون کی تنفیذ ۔اور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ اقبال پارلیمنٹ کو مطلق اجتہاد کا فریضہ سونپنا چاہتے تھے۔ ہم یہاں یہ بھی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مقالہ کی تکمیل کے بعد جب ہم نے مذکورہ بالابحث ڈاکٹر اسراراحمد رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کی تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا اور راقم الحروف کا شکریہ بھی ادا کیا اور تنظیم اسلامی کی ایک مجلس شوریٰ میں بھی اس بات کا اظہار کیا کہ وہ عنقریب اقبال رحمہ اللہ کے تصورِ اجتہاد سے متعلقہ اپنے سابقہ موقف سے رجوع کے بارے ایک تحریراپنے رسالہ ’میثاق‘ میں بھی شائع کریں گے جس کی نوبت ان کی زندگی میں نہ آ سکی۔اس بحث کو مقالے میں اس لیے باقی رکھا گیا ہے کہ اقبال رحمہ اللہ کے الفاظ (The transfer of the power of Ijtihad)سے کسی کو بھی یہ شبہ لاحق ہو سکتا ہے کہ اقبال رحمہ اللہ مطلق اجتہاد کی بجائے اجتہاد کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔اقبال رحمہ اللہ کے ہاں اس لفظ کے استعمال کی توجیہ یہ ہے کہ اصولیین نے اجتہاد کی تعریف کو ’’استفراغ الوسع‘‘یا ’’استفراغ الطاقة‘‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا شمار بھی ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اقبال کے نظریہ’ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ‘ پر نقد کی ہے۔ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کے بقول اگر پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دے دیا جائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اجتہاد کا حق علماء سے چھین کر عوام الناس میں تقسیم کر دیا جائے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ اجتہاد صرف علماء اور قرآن و سنت کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں ،کیونکہ اجتہاد نام ہی قرآن و سنت کی گہرائیوں اور وسعتوں میں حکم ِشرعی کا تلاش کا ہے اور یہ کام عوام الناس یا ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے بس میں نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: ’’باقی رہااجتہاد کا معاملہ تو یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اجتہاد دراصل شرعی احکام ہی کی تلاش و اطلاق کا نام ہے، کوئی نئی شریعت وضع کرلینے کا نام نہیں۔لہٰذا اس سلسلہ میں ضرورتوں کے مطابق وہی لوگ رہنمائی دے سکتے ہیں جو کتاب و سنت کی زبان اور اس کے علوم کے ماہر اور ان کی بھرپور بصیرت رکھتے ہوں...لہٰذا علماء کو تھیا کریسی کا طعنہ دے کر اجتہادی ذمہ داریاں عوام کے سپرد کرنا نرا احمقانہ تصور ہے۔‘‘ [1] ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ اجتہاد اگرچہ علماء کا حق ہے لیکن علما کے اجتماعی اجتہادات کو بھی ریاستی قانون کی بنا کر ریاست کے جمیع باشندوں پر نافذ کرنا درست نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’ ’اجتہاد، میں حکومت اتھارٹی ہے نہ علماء دین! دستور و قانون کے سلسلہ میں کسی خاص طبقے کی وضع و تعبیر کے
Flag Counter