فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔تاہم تدبیری امور میں شرعی احکام کی مطابقت کی جو شرط ہے، اس کے لیے ماہرین شریعت کی طرف سے نگرانی لازمی ہے۔شرعی امور کی نگرانی کسی الیکشن اور سلیکشن کے بغیر بھی علمائے دین پر فرض کفایہ ہے مگر پارلیمنٹ خود اپنے اوپر اگر کچھ ماہرین شریعت و قانون کو نگران بنانا چاہے تو موجودہ حکومتی ڈھانچہ کے ایوان بالا(سینٹ) میں انہیں اسی طرح لایا جاسکتا ہے جس طرح ٹیکنو کریٹس کو لیا جاتا ہے۔‘‘ [1] خلاصہ کلام یہ ہے کہ جمہوری طریقے سے منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے اجتماعی اجتہادکا تصور اسلام کی روح کے منافی ہے۔ البتہ علماء، فقہاء اور ماہرین ِفن پر مشتمل ایک ایسے ادارے کو اجتماعی اجتہاد کا فریضہ سونپا جا سکتا ہے جو علم، عدالت، فقاہت اور صلاحیت کی اسلامی بنیاوں پرپورا اترتا ہو۔پھر چاہے اس ادارے کو پارلیمنٹ کہہ لیں یا سینٹ، مجلس اہل حل و عقد کا نام دے لیں یا مجلس شوریٰ کا، اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ خلاصہ کلام پارلیمنٹ کے ذریعے اجتماعی اجتہاد کا تصور اس اعتبار سے ناقص ہے کہ پارلیمنٹ کا ادارہ کوئی علمی اور فقہی مجلس نہیں ہے کہ وہ اجتہاد کا فریضہ سرانجام دے بلکہ وہ ایک ایسی سیاسی اور ملی مجلس ہے کہ جس کے قیام کا بنیادی مقصد ریاست کے انتظامی، معاشی اور سیاسی امور کی دیکھ بھال ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین کی اکثریت دینی علوم کی مبادیات سے بھی نابلد ہوتی ہے جبکہ اجتہاد کی بنیادی شرائط میں یہ شامل ہے کہ دینی علوم میں رسوخ حاصل ہو۔ اجتماعی اجتہاد کی بہترین صورت یہی ہے کہ جید علماء کی ایک غیر سرکاری مجلس شوری ہو کہ جس میں کسی نئے مسئلے پر باہمی مشاورت کی روشنی میں ایک اجتماعی رائے کا اظہار کیا جائے اور جن علماء کا اختلاف ہو، ان کے اختلافی نکات کو بھی اجتماعی فتوی کے ساتھ شائع کیا جائے۔ |