برابر مقام حاصل کر چکی ہیں۔ان کا ’’نظریہ کام‘‘ لاکھوں خواتین کے نظریہ سے انتہائی مختلف ہے۔ہکس اس امر پر زور دیتی ہے کہ خواتین کو ان کی محنت کا اصل اَجر تب ملے گا جب ان کی اُجرتوں میں اضافہ ہو گا اور ان کا معیارِ زندگی بلند ہو گا۔ [1] دسواں باب : Race & Gender اس باب میں ہکس نے سفید فام خواتین کے متکبرانہ رویے کی مذمت کی ہے جس کی وجہ سے تحریکِ نسواں پر ’’نسلی‘‘ اور ’’متعصب‘‘ ہونے کی چھاپ لگی ہے۔یہاں مصنفہ نے ایک کم سن سفید فام لڑکی کے خیالات کا حوالہ دیا ہے جو میڈیا پر صرف سفید فام خواتین کے ظاہر ہونے کی یہ وجہ بیان کرتی ہے کہ سیاہ فام افراد چونکہ رنگت میں سفید اور پُر کشش نہیں ہوتے اس لئے انہیں ٹیلی وژن پر نہیں دکھایا جاتا۔ہکس کے مطابق سیاہ فام خواتین کا غم ان کے حقوق کے لئے جہد کرنے والے سول سوسائٹی کے افراد سے بہتر کوئی نہیں جانتا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جب یہی لوگ تحریک نسواں کی جانب آتے ہیں تو سیاہ فام خواتین کی خدمات اور کارناموں کا انکار کردیتے ہیں۔ [2] گیارہواں باب: Ending Violence اس باب میں مصنفہ نے گھریلو تشدد کو مرکزی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ ہکس کہتی ہیں کہ اگرچہ جوگھریلو تشدد مردوں کی جانب سے خواتین پر کیا جاتا ہے، وہ تحریکِ نسواں میں مرکزی حیثیت کا مسئلہ ہے لیکن مسئلہ کی اہم جہت وہ تشدد بھی ہے، جو والدین کی جانب سے اپنے بچوں پر بلاواسطہ کیا جاتا ہے۔ اور وہ بھی جو ان کے ننھے ذہنوں پر کیا جاتا ہے جبکہ ان کے والد کی جانب سے ان کی والدہ پر تشدد ہوتا ہے اور وہ اس عمل کے عینی شاہد ہوتے ہیں۔لہٰذا تشدد کی اس صورت کی مذمت بھی ضروری ہے جو تاحال اکثر لوگوں کے لئے ناقابلِ فہم اور خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔ [3] بارہواں باب : Feminist Masculinity اس باب میں مصنفہ نے تحریکِ نسواں کو بد نام اور بدنما دکھانے پر ذرائع ابلاغ پر تنقید کے ساتھ ساتھ ان کا طریقۂ واردات بھی بیان کیاہے۔ اس نقطہ کو بیان کرنے کے لئے ہکس نے تاریخ کی طرف رجوع کیا ہے اور لکھا ہے کہ مردوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے کے بعدمتاثرہ عورتوں میں مردوں کی جانب نفرت اور بغض کا جذبہ |