تھا ، کالجوں اور جامعات کے نصاب تعلیم میں"Women’s Studies "اور اس جیسے دیگر مضامين کی شمولیت بھی دراصل اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی کہ جنہیں بعد ازاں 70ء کی دھائی میں مرکزی اور اہم مضامین میں بھی شامل کیا گیا۔لیکن افسوس کہ اس سلسلہ میں زوال تب آیا جب تحریک میں مرکزی کردار ادا کرنے والی قائدین کو تعلیمی اداروں میں سے برخاست کر دیا گیا۔ [1] تیسرا باب: Sisterhood is Still Powerful اس باب میں بیل ہکس نے اپنی زندگی کے ذاتی تجربات کی روشنی میں متنوع انسانی اصناف کےرویوں پر تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ہکس کے مطابق جب وہ اپنے آبائی علاقے سےسٹانفورڈ"Stanford "منتقل ہوئی تو وہاں اس نے کالج کی سطح پر ان جماعتوں میں کہ جن میں صرف لڑکیاں تھیں اور ان جماعتوں میں کہ جن میں لڑکیوں کے ساتھ لڑکے بھی شامل تھے ،نمایاں فرق محسوس کیا۔مؤخر الذکر جماعتوں میں چونکہ لڑکیوں کو کبھی بولنے کا موقع نہ ملا تھا، اس لئےوہ اجتماعی مباحث میں کم ہی حصہ لیتی تھیں ، نیز اپنی آراء کا اظہار بھی شاذ ہی کرتی تھیں۔اور اگر قسمت سے انہیں بولنے کا موقع دیا بھی جاتا تو انتہائی نحیف آواز اور اعتماد سے عاری لہجے میں یہ مباحثہ ہوتا یہاں تک کہ ہکس پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس نے بھی اپنی خود اعتمادی میں واضح کمی محسوس کرنا شروع کر دی کیونکہ اپنے آبائی علاقے میں وہ اس قدر پُر اعتماد تھی کہ بقول اس کے ،خود کو پروفیسر سمجھا کرتی تھی۔غرضیکہ ہکس کے مطابق چونکہ اساتذہ کی جانب سے خواتین کو جنسِ مخالف کے برابر رتبہ نہیں دیا جاتا، اس لئے وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان سے کمتر ہی محسوس کرتی ہیں لہٰذا اس ضمن میں تربیت کی اَشد ضرورت ہے۔ [2] چوتھا باب: Feminist Education for Critical Consciousness تحریک نسواں کی حالیہ تحریک میں عموماًان امکانات کا بھی تجزیہ پیش کیا جاتا ہے کہ جن کے ذریعے مردوں کی حکمرانی کے نظام پر قابو پانے کی تجاویز دی جاتی ہیں۔تحریکِ نسواں کے دو اہم مطالبے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ گذشتہ ادوار میں خواتین کی طرف سے تحریر کردہ ادبی سرمائے کی تحقیق کی جائے اور اسے سامنے لایا جائے اور دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ خواتین کی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں کہ جہاں اِن تحریروں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اس طرح نہ صرف خواتین کے نقطہ نظر سے تاریخ کا مطالعہ سامنے آئے گا بلکہ نئی تحقیق کے لئے نسوانی ادب کا احیاء بھی ممکن ہو گا۔ [3] |