قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہ رَضِيَ اللّٰہ عَنْهُمَا، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ﴿قُلْ هُوَ القَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ﴾، قَالَ: ((أَعُوذُ بِوَجْهِكَ)) ، ﴿أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ﴾ قَالَ: ((أَعُوذُ بِوَجْهِكَ)) ، فَلَمَّا نَزَلَتْ: ﴿أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ﴾ قَالَ: ((هَاتَانِ أَهْوَنُ، - أَوْ أَيْسَرُ -)) [1] ’’عمرو کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ تم پر اوپر سے عذاب بھیجے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں اللہ کی اس عذاب سے پناہ چاہتا ہو یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے تو اس پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پس جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ تم کو فرقوں میں تقسیم کر دے اور تم کو ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھا دے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ دونوں عذاب کی صورتیں بہت ہی آسان ہیں۔‘‘ اس روایت کے مطابق اہل حق علماء کی عرفی رائے سے اختلاف کرنے والے اپنی خواہشات کی پیروی کے نتیجے میں فرقوں میں بٹ کر آپس میں لڑیں گے اوراللہ کے عذاب کے مستحق بن جائیں گے۔ اور اہل حق علما کی جماعت کے بالمقابل آراء کے حاملین کو ایسے فِرق قرار دیا گیا ہے جو عذاب الہٰی کے مستحق ہو چکے ہوں۔ 5۔ تعامل اہل مدینہ اور تعامل حرمین مدینہ منورہ کو باعتبار علم دوسرے شہروں جیسے کوفہ، بصرہ، شام، مصر وغیرہ پر جو فضیلت حاصل ہوتی ہے اس کا کون انکار کرسکتاہے؟ اسی لیے کوفہ کے سوا باقی تمام شہروں کے لوگ اہل مدینہ کے علم کے سامنے سر نگوں رہا کرتے تھے اور کبھی علم میں اپنے آپ کو ان کا ہم پلہ خیال نہیں کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ مدینہ میں رہ جانے والے وہ صحابہ تھے جن کا شمار علمی لحاظ سے بہترین صحابہ میں ہوتا تھا، کیونکہ فتنہ ( حضرت علی اور معاویہ کے زمانہ کی خانہ جنگی) کے بعد وہاں سے اگر کوئی صحابی نکلا تو اس سے بہتر کوئی دوسرا صحابی وہاں مقیم رہا۔ یہی فضیلت مدینہ منورہ کے علاوہ مکہ مکرمہ کو بھی ہمیشہ سے حاصل رہی ہے۔ اسی وجہ سے بعض اہل علم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ رائے پیش کی ہے کہ وہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرح بلکہ اسے ایک قدم آگے بڑھ کر اہل مدینہ ومکہ دونوں کے تعامل کی حجیت کے قائل تھے، لیکن یہ دعوی محل نظر ہے۔ یہ مغالطہ امام بخاری رحمہ اللہ کی جس تبویب سے پیدا ہوا ہے، وہ یہ ہے: ’’كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب ما ذكر النبي و حض علي إتفاق أهل العلم و ما اجتمع عليه الحرمان مكة و المدينة.... ‘‘ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لینے کا بیان۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول اور شوق دلانے کا بیان کہ امت |