Maktaba Wahhabi

104 - 117
حجت ہے۔ 3۔ اجماع کے ذرائع امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع میں جہاں اجماع کے تصور کو اجاگر کیا ہے اور اسے اہل حق علما کی جماعت کی عرفی رائے قرار دیا ہے، وہاں اس کے علم کے ذرائع پر بھی بحث کی ہے۔ امام صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اجماع کے ذریعے اس امت کی خیر وبھلائی کو قیامت تک کے لیے اس کاایسا مقدر بنا دیا ہے کہ جس سے اختلاف اللہ کی مشیئت سے اختلاف کے مترادف ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَخْطُبُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم يَقُولُ: ((مَنْ يُرِدِ اللّٰہ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي الله، وَلَنْ يَزَالَ أَمْرُ هَذِهِ الأُمَّةِ مُسْتَقِيمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ: حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰه)) [1] ’’ابن شہاب زہری﷫ (متوفیٰ 124ھ) سے مروی ہے کہ مجھے حمید﷫ نے خبر دی اور انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سفیان سے سنا جبکہ وہ خطبہ دے رہے تھے کہ انہوں نے کہاکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا: جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں اور میں تو تقسیم کرنے والا ہو جبکہ اللہ تعالیٰ دینے والا ہے۔ اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ سیدھا رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے۔‘‘ اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کونیہ کی خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی مشیئت میں خیر واستقامت لکھ دی ہے لیکن اس خیر واستقامت کا ذریعہ اہل حق علما کی جماعت ہے کہ جن کے واسطے سے یہ امت ہمیشہ خیر کی شاہراہ پر گامزن رہے گی اور شذوذات و نوادر یا تجدید وتشکیل کی پگڈنڈیوں سے محفوظ رہے گی۔ اہل حق علماء کی اجتماعی رائے کا فکری طور غالب ہونا ہی اس کی صحت وحجت کی کافی وشافی دلیل ہے۔ 4۔ اجماع کی مخالفت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع میں لزوم جماعت کا باب باندھنے کے فوراً بعداہل علم کی عرفی رائے اور اتفاق سے علیحدہ رستہ اختیار کرنے والے گروہوں اور فرقوں کی مذمت میں ایک باب یوں باندھا ہے: ’’باب قول اللّٰہ تعالى أو یلبسکم شیعا. ‘‘ ’’اللہ کے اس قول کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فرقوں میں بانٹ دے گا کا بیان۔‘‘ اس باب کے تحت امام صاحب رحمہ اللہ درج ذیل روایت لائے ہیں:
Flag Counter