2۔ اجماع کی تعریف امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع میں ایک اور باب اس عنوان سے قائم کیا ہے: باب قَوْلِ النَّبِىِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : (( لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ يُقَاتِلُونَ )) . وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ. [1] ’’اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا بیان کہ میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہتے ہوئے لڑتا رہے گا اور وہ اہل علم کا گروہ ہے۔‘‘ اس باب کے عنوان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک’ امت وسط‘ اور لزوم’جماعت‘ سے مراد اہل علم ہیں۔پس ایک بات تو واضح طور معلوم ہو گئی کہ امام صاحب کے نزدیک اجماع سے مراد امت یا عوام کے فرد فرد کا اتفاق نہیں ہے بلکہ صرف اہل علم کے مجموعی اتفاق کا نام اجماع ہے اور عوام کا اتفاق اہل علم کے اتفاق کے تابع ہوتا ہے۔ دوسرا یہ بھی واضح ہو گیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اجماع سے مراد اس کی وہ فنی تعریف نہیں ہے جسے متاخرین اصولیین نے منطقی طورپر جامع مانع بنانے کے لیے متعدد شروط وقیود کی روشنی میں وضع کیاہے۔ اس باب کے عنوان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک اجماع سے مراد کسی زمانے کے فرداً فردا ً تمام اہل علم کا اتفاق نہیں بلکہ معروف اہل علم کی جماعت کا اتفاق ہے کیونکہ عربی زبان میں ’طائفة‘کے لفظ کا اطلاق ایک یا دو یا تین پر بھی ہو جاتا ہے۔[2] پس اہل علم کی وہ جماعت جو حق پر قائم ہو، اس کی اجتماعی راے امت کے حق میں حجت بن جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس باب کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں: عن المغیرة بن شعبة عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((لا یزال طائفة من أمتی ظاهرین حتی یأتیهم أمر اللّٰہ وهم ظاهرون)) [3] ’’مغیرہ بن شعبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی یہاں تک کہ اللہ حکم یعنی قیامت قائم ہو جائے اور وہ پھر بھی غالب رہیں گے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اصل حق اور حجیت حق میں ہے اور حق کی حجت قائم ہے لہٰذا اہل حق کی رائے |