کے علما کا اتفاق حاصل ہو اور اس بات کا بیان کہ جس اہل مکہ اور اہل مدینہ کا اتفاق ہو۔ دیکھ لیجیے کہ اس عبارت میں کہیں اجماع یا تعامل اہل حرمین کی صراحت نہیں، چنانچہ یہ موقف کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعامل اہل مدینہ یا تعامل اہل حرمین کو حجت خیال کرتے ہیں، صحیح نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ضرور واضح ہے کہ وہ تعامل مدینہ اور اہل حرمین کے اتفاق کو اہمیت ضرور دیتے ہیں۔ اس کا ایک واضح قرینہ یہ بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح میں یہ انداز اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی کتاب کے ہر باب کی ابتداء امام مالک رحمہ اللہ کی حدیث سے کرتے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں مدینۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل علم کا علم کیا اہمیت رکھتا ہے۔ [1] 6۔ اجماع اور منہاج اہل علم کی ایک جماعت نے اجماع کو ’منہاج‘ کا مسئلہ قرار دیا ہےیعنی مسلمانوں کے اہل علم کے معروف ’منہج استدلال‘ سے نکل کر کوئی رائے پیش کرنا یا استنباط کرنا درحقیقت اجماع کی مخالفت ہے۔ ان علماء نے اپنے اس موقف کی دلیل میں یہ بیان کیا ہے کہ اجماع کے حق میں پیش کی جانے والی دلیل میں’اتباع سبیل المؤمنین‘کے لفظ نمایاں ہیں جس میں ”سبیل‘ کا قریبی ترجمہ ’منہج‘ ہی بنتا ہے کیونکہ ’سبیل‘ کا لغوی معنیٰ ’رستہ‘ہے اور رستہ پر چلا جاتا ہے اور چلنا ایک فعل ہے۔ پس سبیل المومنین کی مخالفت سے مرادسلف صالحین کے منہج استدلال اور طرز استنباط کو چھوڑتے ہوئے کوئی اور اصول وقواعد استدلال اختیار کرنا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اہل علم کے عرفی اتفاق سے ان کی مراد اصول استدلال اور قواعد استنباط میں ان کا عرف ہے۔ باقی جہاں تک ان اصول وقواعد کی تطبیق واجراء کی صورت میں نتائج وثمرہ کا معاملہ ہے یعنی فتویٰ وفقہ تو اس میں اختلاف بہت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی الجامع میں یہ حدیث لائے ہیں: عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَخْطُبُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم يَقُولُ: ((مَنْ يُرِدِ اللّٰہ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللّٰه، وَلَنْ يَزَالَ أَمْرُ هَذِهِ الأُمَّةِ مُسْتَقِيمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ: حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰه.)) [2] ’’ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مجھے حمید نے خبر دی اور انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سفیان سے سنا جبکہ وہ خطبہ دے رہے تھے کہ انہوں نے کہاکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا: جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں اور میں تو تقسیم کرنے والا ہو جبکہ اللہ تعالیٰ |