ہے اور وہ اسے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل بھی کر رہے ہیں تو اس کا معاملہ تو ویسا ہی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ جیساکہ انہوں نے بیان کیاہے(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی وجہ سے دین ہے) اور جس کو انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کیا ہے (لیکن اس کے دین ہونے پر ان کا اجماع ہے ) تو اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہو اور اس کے غیر کابھی احتمال ہے۔ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اس قسم کے اجماع کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قرار دیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی چیز کی حکایت جائز ہے جو سن کر نقل کی گئی ہو۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ کا اجماع کے بارے یہ بھی کہنا ہے کہ اجماع صرف ضروریات دین یا اصول دین میں ممکن ہے، اس سے بھی ان کی مراد یہی ہے کہ اصول دین میں ہی اہل علم کی متفق علیہ رائے عرف سے معلوم کی جا سکتی ہے اور جہاں تک اجتہادی یا فروعی مسائل کا تعلق ہے تو ان میں اہل علم کا اتفاق ممکن نہیں ہے اور علما کے معروف اختلافات اس بات کی صریح دلیل ہیں۔ [1] اصولیین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اجماع کا رد کر دیا، [2]لیکن انہوں نے جس اجماع کا رد کیا وہ دراصل وہ مزعومہ فنی اجماع ہے جس کی صدائے بازگشت بعض اہل علم کی طرف سے امام احمد رحمہ اللہ کے زمانہ میں ہی گونجنا شروع ہو گئی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ كے اصول ِاجماع کے بارے میں تصورات امام بخاری رحمہ اللہ کا اجماع کے بارے موقف وہی ہے جوائمہ اہل الحدیث والأثر کا ہے کہ اجماع سے مراد اہل علم کی عرفی رائے ہے اور اس کا خلاف چونکہ گمراہی کا سبب ہے لہٰذا جائز نہیں ہے۔ ہم امام موصوف رحمہ اللہ کے اس حوالے سے افکار کے تفصیلی جائزے کو ذیل کے عنوانات کی صورت میں واضح کریں گے: 1۔ اجماع کی حجیت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: ’’باب قوله تعالى: ﴿وکذلك جعلنکم أمة وسطا﴾ وما أمر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلزوم الجماعة وهم أهل العلم. ‘‘ ’’اللہ کے قول اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنایا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت کے |