Maktaba Wahhabi

100 - 117
الباجی رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ جس اجماع اہل مدینہ کو حجت مانتے تھے وہ اس عرفی روایت پر اہل مدینہ کا اتفاق تھا جو روایت صحابہ کے دور سے چلی آ رہی تھی جیسا کہ صاع، مد، اذان،اقامت اور سبزیوں میں زکاة نہ ہونے جیسے مسائل میں اہل مدینہ کا اتفاق ہے۔ اور یہ مسائل ایسے ہیں جن میں اہل مدینہ کے اتفاق کی بنیاد وہ عرفی روایت ہے جو صحابہ کے دور سے چلی آ رہی ہو۔[1] امام مالک رحمہ اللہ اگر اجتہادی مسائل میں اہل مدینہ کے اتفاق کو حجت سمجھتے تو اپنی مؤطا میں ’’العیب في الرقیق جماع أهل المدینة على أن البیع بشرط البراءة لایجوز، ولایبرئ أصلا علمه أو جهله‘‘ کے نام سے باب قائم کر کے اس مسئلہ میں اہل مدینہ کی مخالفت نہ کرتے۔ [2] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قال الشافعي: فقال لي قائل: قد فهمت مذهبك في أحکام اللّٰہ ثم أحکام رسوله وإن من قبل عن رسول اللّٰہ فعن اللّٰہ قبل بأن اللّٰہ افترض طاعة رسوله وقامت الحجة بما قلت بأن لا یحل لمسلم علم کتاباً ولا سنة أن یقول بخلاف واحد منهما وعلمت أن هذا فرض اللّٰہ فما حجتك في أن تتبع ما اجمتع الناس علیه مما لیس منه نص حکم اللّٰہ ولم یحکوه عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتزعم ما یقول غیرك أن إجماعهم لا یکون أبدا إلا على سنة ثابتة وإن لم یحکوها قال فقلت له أما ما اجتمعوا علیه فذکروا أنه حکایة عن رسول اللّٰہ فکما قالوا إن شاء اللّٰہ وأما ما لم یحکوه فاحتمل أن یکون قالوا حکایة عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واحتمل غیره ولا یجوز أن نعده له حکایة لأنه لا یجوز أن یحکي لا مسموعاً. ‘‘[3] ’’امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک کہنے والے نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے بارے آپ کا مذہب اچھی طرح سمجھ لیا ہے ۔پس جو شخص بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خبر کو قبول کرے گا وہ اللہ ہی کی خبر قبول کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض کیا ہے اور جو کچھ(دلائل ) آپ نے (اس مسئلے میں)بیان کیے ہیں اس سے حجت قائم ہو جاتی ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کتاب و سنت کی خبر پہنچ جانے کے بعد اس کی مخالفت کرے اور میں نے یہ بھی جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس (طرز عمل) کو فرض قرار دیا ہے لیکن یہ بتلائیں کہ جس بات پر لوگوں کا اجماع ہو گیا ہو اس کے اتباع کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے جبکہ اس(اجماع) کے بارے میں کتاب اللہ کی نہ توکوئی نص موجود ہو اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہوجسے لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہوں۔ (سائل نے مزید کہا)کیا آپ کا موقف بھی وہی ہے جو آپ کے علاوہ بعض علماء کا ہے کہ اجماع ہمیشہ کسی ایسی سنت پر ہو گا جو کہ ثابت ہواگرچہ لوگ اس سنت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کر رہے ہوں۔میں نے کہا: اگر تو کسی بات پر ان کا اجماع ہو گیا
Flag Counter