Maktaba Wahhabi

107 - 120
’’ بلاشبہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایسی عورت سے نکاح کر رکھا ہے جیسے میں فی الواقع عبداللہ کے لیے مکروہ خیال کررہا ہوں۔‘‘ گویا "کرهتها له " کے الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اس عورت کو، ابن عمر کے دینی اور دنیوی امور کے لیے باعث خطرہ خیال کرتے تھے ۔ اور یہ ایک معقول وجہ تھی جس کی بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حمایت کی تھی اور عبداللہ بن عمر کو طلاق دینے کا مشورہ دیا تھا ۔ علامہ احمدعبدالرحمن البنا رحمہ اللہ (متوفی1978م)فرماتے ہیں : ’’ ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ عورت اس وجہ سے ناپسندتھی کہ ان کے نزدیک وہ آپ کے صاحبزادے کے لیے موزوں نہ تھی اس معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیش نظر ضرور کوئی مصلحت ہوگی بالخصوص اس لیے کہ آپ الہام ربانی کے حامل تھے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ کو اسی لیے طلاق دینے کا حکم دیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ عمر کا خیال صحیح ہوگا ۔ ‘‘ [1] اسی طرح شیخ الحسن محمدبن عبدالہادی سندھی رحمہ اللہ (1138ھ) اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی اطاعت خواہش نفس پر ترجیح رکھتی ہے ۔ لیکن اس وقت جب والدین کا حکم دین اسلام سے موافقت رکھتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس عورت کو ناپسند کرنا اور اپنے بیٹے کو اسے طلاق دینے کا حکم اور مشورہ دینا صرف اس وجہ سے تھا کہ اس عورت کے دین و ایمان کی کمزوری آپ کے سامنے ظاہرہوئی تھی ۔‘‘ [2] والدین کے حکم کو بطور مفید مشورہ سمجھتے ہوئے بیوی کو طلاق دینے کے حوالے سے ایک واقعہ حسب ذیل ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : (( إن أبي یأمرني أن أطلق امرأتي))’’ میرے والد نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔‘‘ تو کیا میں طلاق دے دوں ؟ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے فرمایا : "لا تطلقها" تم اسے طلاق نہ دو ۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ کیا حضرت عمر نے اپنے بیٹے عبداللہ کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے اور پھر حضرت عبداللہ بن عمر کو طلاق دینی پڑی تو اس پر امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا:((حتی یکون أبوك مثل عمر)) [3]’’ ہاں اگر تمہارا باپ وہ مقام حاصل کرلے جوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو
Flag Counter