Maktaba Wahhabi

108 - 120
حاصل تھا تو پھر اس کے مشورے کو حکماًمان لے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ کی مذکورہ بات کے دو مفاہیم ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ تقویٰ و پرہیز گاری اور للہیت میں جو مقام حضرت عمر کو حاصل ہے وہ تیرے باپ کو حاصل نہیں ہے اس لیے تیرے والد کا مطالبہ بغض و عداوت اور حسد و کینہ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عمر گھر کے سربراہ تھے لیکن یہ مفہوم اس وقت درست ہوگا جب واقعی اس شخص کی رہائش اپنے والدین سے الگ ہوگی یا مشترکہ رہائش میں والد کے بڑھاپے یا کسی قسم کی معذوری کی وجہ سے نظم و نسق کا اختیار اس کے پاس نہ رہا ہو ۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ کا موقف اس مسئلہ میں ملاعلی قاری رحمہ اللہ (متوفىٰ 1014ھ) کا موقف بالکل دوسرا ہے جیسا کہ وہ رقمطراز ہیں: ’’ بیٹے پر لازم نہیں کہ وہ والدین کے حکم پر اپنی بیوی کو طلاق دے اگر چہ والدین کو اس کی بیوی ( اور اپنی بہو ) سے شدید تکلیف ہی کیوں نہ پہنچ رہی ہو کیونکہ والدین کے مشورے پر عمل کرنے میں بسا اوقات خاوند کو ضرر پہنچتا ہے۔ اس لیے والدین کی شفقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر وہ اس ضرر کا پوری طرح اندازہ کر لیتے تو وہ بیٹے کو طلاق دینے کا حکم اور مشورہ نہ دیتے۔ اس کے باوجود ان کا طلاق پر اصرار کرنا نادانی ہے جو قابل التفات نہیں۔‘‘ [1] ملا علی قاری رحمہ اللہ کی مذکورہ رائے متوازن معلوم نہیں ہو گی کہ وہ اس سلسلہ میں دوسری انتہا پر ہیں کہ کسی بھی صورت، والدین کے کہنے پر عورت کو طلاق نہ دی جائے حالانکہ اگر والدین کا مشورہ اور حکم معقول علت اور مصلحت پر مبنی ہو تو پھر اس مسئلے میں ان کی اطاعت کرنے میں کوئی شرعی مانع نہیں ہے۔ علامہ قاضی ابن العربی رحمہ اللہ اور امام منذری رحمہ اللہ کا فیصلہ اس مسئلہ میں قاضی ابن العربی رحمہ اللہ (متوفیٰ543ھ)اور امام منذری رحمہ اللہ (متوفیٰ656ھ)نے صحیح راہنمائی فرمائی ہے چنانچہ ابن العربی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں: ’’ بیٹے کے لیے اپنے والد سے نیکی اور حسن سلوک کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو والد نا پسند کرتا ہے اسے وہ بھی ناپسندکرے اگرچہ وہ اس سے محبت کرتا ہو۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ والد کا مشورہ اور حکم اس وقت ہے جب والد بصیرت و درستگی پر ہو ، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھروالد کو راضی کرنے کے لئے بیوی کو طلاق دینا مستحب تو ہو سکتا ہے لیکن اس طرح واجب ہرگز نہیں جس طرح کہ پہلی حالت ( والد کے اصابت رائے ) میں واجب ہے کیونکہ والد کے حق پر ہونے کی صورت میں اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے زمرے میں شامل ہے ۔‘‘ [2]
Flag Counter