اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ (( أَلاَ تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَب )) ’’ آپ نیچے تشریف رکھیں میں آپ کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرتی ہوں۔‘‘ سیدنا ابراہیم نے انہیں خیر و برکت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جب تمہارا شوہر واپس آئے تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ قائم رکھے ۔ جب حضرت اسماعیل واپس آئے تو ان کی بیوی نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک اچھے بزرگ آئے تھے اور اس نے حضرت ابراہیم کی خوب تعریف کی پھر اسماعیل سے کہا کہ وہ آپ کوسلام کہتے تھے اور آپ کو یہ مشورہ دے گئے ہیں کہ اپنی چوکھٹ کو سلامت رکھنا۔اس پر حضرت اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے والد صاحب تھے اور مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں نکاح میں برقرار رکھوں۔ [1]اس طرح ا بن عمر بیان کرتے ہیں : (( كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ وَكُنْتُ أُحِبُّهَا وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا فَقَالَ: لِي طَلِّقْهَا فَأَبَيْتُ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (یاعبداﷲ ) طَلِّقْهَا)) [2] ’’میری ایک بیوی تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا جب کہ ( میرے والد)حضرت عمر اسے ناپسندکرتے تھے چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ اس عورت کو طلاق دے دو لیکن میں نے انکار کردیا ۔حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اے عبداللہ ) اس عورت کو طلاق دے دو۔‘‘ واضح رہے کہ بعض کتب میں ہے کہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو طلاق دے دی ۔ اور مسنداحمد کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر سے فرمایا: ((أطع أباك))اس مسئلہ میں اپنے باپ کے مشورے کو مان کر ان کی اطاعت کرو۔ [3] مذکورہ بالادونوں احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شوہر کو اپنی بیوی کو طلاق دینے سے قبل اپنے والدین سے مشورہ کر لینا چاہیے اور اگر والدین بیوی کو طلاق دینے کا کہیں تواس کی اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے پہلی حدیث میں وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی بیوی ناشکر ی کرنے والی اور بے صبر نہیں ہونی چاہیے اورمیزبانی میں کسی قسم کی کسرنہ چھوڑنے والی ہونی چاہیے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: (( إِنَّ عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ امْرَأَةً كَرِهْتُهَا لَهُ )) [4] |