Maktaba Wahhabi

105 - 120
مشاورت کے بعد نکاح کے معاملے کو حل کرنا چاہیے ورنہ شریک حیات کے حوالے سے ناکامی و ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ طلاق روایات میں ہمیں ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے مشورے سے حضرت اسماعیل نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور حضرت ابن عمر نے اپنے باپ کے مشورے کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ صحیح بخاری کی ایک ر وایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ملنے کے لیے مکہ گئے مگر وہ گھر میں موجود نہ تھے۔ حضرت ابراہیم نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ تمہاری زندگی کیسی گزر رہی ہے تو اس نے (بجائے اس کے کہ صبر و شکر کا اظہار کرتی ) کہا : (( نَحْنُ بِشَرٍّ، نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ، فَشَكَتْ إِلَيْه )) ’’ہمارا تو بہت برا حال ہے ۔ ہم تو بڑی تنگی اور مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ گویا خوب شکوہ و شکایت کی اس پر ابراہیم نے کہا :’’ اچھا جب تمہارا خاوند آئے تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل لے ۔جب ابراہیم چلے گئے اور اسماعیل گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی نے ان کے بارے میں بتایا تو اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور مجھے یہ مشورہ دے گئے ہیں کہ میں تمہیں طلاق دے دوں۔ چنانچہ انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی۔ [1] روایت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے طلاق کا مشورہ اس لئے دیاکہ آپ مہمان کی حیثیت سے ان کے ہاں گئے تھے ۔ اور اس عورت نے خاطر تواضع کرنے کے بجائے اپنا دکھڑا سناناشروع کردیا جو حضرت ابراہیم کو پسند نہ آیا کہ ایک نبی کی بیوی اور ایک نبی کی بہو ہوکر بھی صبروشکر کرنے کی بجائے جزع فزع اورشکوہ و شکایت کی روش اختیار کرے۔ اور انہوں نے ایسی بدسلیقہ عورت کو اپنے گھرانے کے لائق نہ سمجھتے ہوئے بیٹے سے طلاق کا عندیہ ظاہر کیاجو بیٹے نے پورا کردیا ۔ ایک عمر صبر کے بعد پھر حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کو ملنے کے لیے گئے ۔ اس باربھی وہ گھرنہ ملے البتہ ان کی نئی بیوی سے ملاقات ہوئی۔ توحضرت ابراہیم نے ان سے پوچھا ۔ آپ کی گزر بسر کیسی ہو رہی ہے ۔ تو اس پر عورت نے کہا : (( نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ، وَأَثْنَتْ عَلَى اللهِ)) ’’ ہم خیر و عافیت کے ساتھ ہیں بہت خوشحال ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔‘‘ صحیح بخاری کی اگلی روایت میں ہے کہ اس خاتون نے حضرت ابراہیم کی خدمت کرنا چاہی اور اپنی حالت پر
Flag Counter