Maktaba Wahhabi

75 - 79
ہو۔''[1] ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ''سو سال سے بھی زیادہ مدت سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ہمیں دورِ جدید کے علما کی ضرورت ہےیعنی ایسے علما جو علوم دینیہ کی تحصیل کے علاوہ وقت کے علوم کی بھی تعلیم حاصل کریں۔ اِس طرح ایسے علما تیار ہوں جو قدیم و جدید دونوں سے واقف ہوں تاکہ وہ عصر حاضر کے مطابق، اسلام کی خدمت انجام دے سکیں۔ایسے لوگوں کی فہرست ہزاروں میں شمار کی جا سکتی ہے جو دونوں قسم کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے، مگر وہ ملت کی مطلوب ضرورت کو پورا نہ کر سکے۔ مثال کے طور پر چند نام یہاں لکھے جاتے ہیں: مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، پروفیسر مشیر الحق، ڈاکٹر عبد الحلیم عویس، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی، مولانا محمد تقی عثمانی، پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی، پروفیسر محمد اجتبا ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، پروفیسر ضیاء الحسن ندوی، ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر سعود عالم قاسمی وغیرہ... میں نے ذاتی طور پر اِس قسم کے علما کی تحریریں پڑھی ہیں، مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن سب کی تحریریں قدیم روایتی مسائل کی جدید تکرار کے سوا اور کچھ نہیں۔''[2] اختیال: خان صاحب کی تحریروں سے یہ واضح طور محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے خیالوں میں اُن کی اپنی عظمت اور بڑائی اِس قدر رَچ بس گئی ہے اور وہ نرگسیت (Narcissism) کا شکار ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں: ''اَصحابِِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اِس کا آغاز اس وقت ہوا جب ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اَصحابِِ رسول کے بعد
Flag Counter