Maktaba Wahhabi

71 - 111
کے مقابلے میں دیا گیا ہے، جبکہ عورت کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس لیے احناف نے اس کا متبادل حل ایک تو تفویض طلاق کی صورت میں ایجاد کیا جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کی، اس کا ایک اور حل فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے جو عجیب بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مقابلے میں شوخ چشمانہ جسارت بھی۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا خاوند نہ چھوڑتا ہو اور وہ اس کے ہاتھ سے تنگ ہو تو وہ خاوند کے بیٹے سے زِنا کروالے، تاکہ وہ خاوند پر حرام ہو جائے کیونکہ فقہ حنفی میں حرام کاری سے بھی رشتۂ مصاہرت قائم ہو جاتا ہے۔[1] اس حیلے کی بھی ضرورت اسی لیے پیش آئی کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ حق خلع علماے احناف کو تسلیم نہیں ورنہ اس قسم کی صورتوں میں عورت عدالت سے خلع کے ذریعے سے ناپسندیدہ یا ظالم شوہر سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ هَدَاهُمُ اللّٰهُ تَعَالىٰ ہمارے نزدیک یہ حیلہ بھی بناے فاسد علیٰ الفاسد ہے۔ حرام کام کے کرنے سے کوئی حلال حرام نہیں ہو سکتا۔ میاں بیوی کا تعلق حلال ہے، بیوی اگر خاوند کے بیٹے سے اپنا منہ کالا کروائے گی تو زنا کاری جیسے جرم کبیرہ کی مرتکب ہو گی لیکن اس سے وہ اپنے میاں کے لیے حرام نہیں ہو گی، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا یُحَرِّمُ الحرامُ الحلالَ)) [2] ''حرام کام حلال کو حرام نہیں کرے گا۔'' اس لیے اَسلم واَحوط راستہ عورت کے لیے حق خلع کا تسلیم کرنا ہے، اس حق شرعی کو ماننے کے بعد نہ تفویض طلاق کے کھکیڑ میں پڑنے کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ اپنے سوتیلے بیٹے سے منہ کالا کرانے کی۔ اس کے بغیر ہی عورت خاوند سے نجات حاصل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے شریعت نے جب کئی معقول طریقے تجویز کیے ہوئے ہیں تو ان کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ غیر معقول تجاویز پر اصرار کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ وماعلینا إلاالبلاغ المبین
Flag Counter