ہے کہ تم پر دنیا فراخ کردی جائے گی۔'' تو کیا کوئی صاحبِ علم و بصیرت اس حدیث کی بنا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں فقر و تنگ دستی نابود ہے، کوئی مسلمان فقیر و تنگ دست نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا خطرہ اور اندیشہ ہے؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے : ''مجھے تم پر تنگ دستی کا خوف نہیں ہے ۔''لیکن کوئی بھی عقل مند ایسی بات نہیں کہہ سکتا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُمت کے اندر فقر و فاقہ اور اس میں مبتلا فقیر لوگ موجود ہیں بلکہ ذلّت آمیز غربت اور ہلاکت خیز تنگ دستی بھی موجود ہے حتیٰ کہ اس وجہ سے خود کشی کے واقعات بھی بکثر ت ہوچکے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں ۔ تو کیا یہ مفکرین مغالطہ بازی اُمت مسلمہ میں فقر و تنگ دستی اور غریب لوگوں کےوجود کا بھی انکار کردیں گے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں تو اُمّت کے مجموعی طور پر فقر و تنگ دستی میں مبتلا نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مسلمان مالدار بھی ہوں گے اور فقیر و تنگ دست بھی البتہ ایسے نہیں ہوسکتا کہ ساری اُمت ہی فقیر وتنگ دست ہوجائے۔ اسی طرح شرک کے معاملے میں بھی ساری کی ساری اُمّت مسلمہ کے مجموعی طور پر مشرک نہ بننے کے بارے میں عدم خوف کا اظہار کیا گیا ہے کہ اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو شرک میں مبتلا ہوجائیں گے اور ایسے بھی کہ جو توحید پر قائم رہیں گے، جیسا کہ علامہ عینی حنفی، ملا علی قاری حنفی، علامہ قسطلانی، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور غلام رسول سعیدی بریلوی کی تصریحات بیان ہوچکی ہیں۔[1] بلکہ آخر الذکر غلام رسول صاحب سعیدی بریلوی نے (دوسرے دلائل کے تناظر میں ) حدیث کا ترجمہ ہی یوں کیا ہے: |