قانون کو تو ایسا منصفانہ ہونا چاہئے کہ اس میں کسی پر بھی ظلم کا امکان نہ ہو۔ اگر کسی عورت کا اکیلا بیان ہی مرد کو مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا، باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ نتیجۃ ً زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی اور یہی حقوق نسواں کے اَن تھک مبلّغوں کا ہدف ہے۔قانون کے ایسے غلط استعما ل کی نشاندہی ایک امریکی سکالر نے بھی کی ہے: ''جن عورتوں کو حدود قوانین کی دفعہ 10(2)کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں)سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ، وہ اپنے مبینہ شریک ِجرم کے خلاف دفعہ 10(3) کے تحت (زنا بالجبر) کا الزام لے کر آجاتی ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ملتا جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اسلئے وہ مرد ملزم کو زنا بالرضا کی سزا دے دیتا ہے اور عورت شک کے فائدے کی بنا پر ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔''[1] عورت کے دعواے جبر کے ضمن میں شرعی نظام یہ ہے کہ اُس کے اپنی ذات سے بدکاری کے سزا کو رفع کرنے کے لئے تو قرائن اور حالات کا اعتبار کیا جائے گا، جبکہ مرد کو شرعی سزا دلوانے کے لئے چار گواہ ہی ضروری ہیں، تاہم اکیلے قرائن کی موجودگی میں مرد کو کمتر جرائم کی تعزیری سزا دی جاسکتی ہے جیسا کہ سعودی عرب کی شرعی عدالت کا فیصلے بھی موجود[2] ہیں، ایسے ہی زنا بالجبر میں اگرچار گواہ پورے نہ ہوں اور وقوعہ کی نوعیت سنگین تر ہو تو دو گواہوں کی بنا پر ایک فقہی قول کے مطابق ،حرابہ ودہشت گردی کی شرعی سزا بھی دی جاسکتی ہے جو زنا کی سزا سے بھی سنگین تر ہے،تفصیل كے لئے حاشیہ دیکھیں۔[3] |