Maktaba Wahhabi

106 - 112
رولن میکریٹی اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ''جیسے جیسے اُن کی تحقیق مزید آگے بڑھی اُنہوں نے دریافت کیا کہ دل کی اپنی مخصوص منطق ہے جو بسا اوقات دماغ سے آنے والے پیغامات سے مختلف سمت میں جاتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ انسانی دل اس طرح کام کرتا ہے جیسے اس کا اپنا ایک دماغ ہو۔''[1] امریکی سائنس دان ڈاکٹر پال پیرٴسل(Paul Pearsall, Ph.D.) نے انسانی دل کی ذہانت پر اپنی کتاب میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ڈاکٹر پیر ٴسل کا موقف ہے کہ علوم انسانی کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سائنس نے کئی سچائیوں کو بہت مشکل سے تسلیم کیا ۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک ڈاکٹر حضرات جراثیم کے وجود کو تسلیم نہیں کیا کرتے تھےاور اس دوران کئی مریضوں کی اموات جراثیموں کی وجہ سے ہوئیں،کیونکہ اس دور کے طبیب اپنا نشتر (Scalpel)اپنےجوتے کے تلے کے چمڑے سے تیز کرتے تھے جس پر نشتر پر جراثیم لگ جاتے اور جس مریض کا اس سے آپریشن کیا جاتا، اس کی موت کا باعث بنتے۔ وہ اطبا(Doctors) اس بات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے کہ لوگ جراثیموں جیسی کسی مخلوق کے وجود کے قائل ہیں۔بالآخر جب لیون ہک (Leewen hook) نے خوردبین (Microscope)ایجاد کی اور سائنس دانوں نے خود اپنی آنکھوں سے جراثیم دیکھے تو پھر ہر ہسپتال میں آپریشن سے پہلے ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ دھونا شروع کردیے اور اُنہوں نے اپنے میڈیکل اوزاروں کو بھی جراثیموں سے پاک(Sterilize)کرنا شروع کردیا ۔ ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق یہی حال سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا بالآخر دل کے معاملے میں ہوگا ،جب اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ انسانی دل بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر پیرٴسل مزید لکھتا ہے: ''موجودہ دور کی ایجادات کا تعلق بھی دماغ ہی سے ہے ،دل سے نہیں ۔درحقیقت
Flag Counter