Maktaba Wahhabi

102 - 112
اسلام اور سائنس طالب ہاشمی انسانی فکروعمل میں قلب کا کردار اور اسلام روزمرّہ گفتگو میں ہم کہتے ہیں کہ میرا دل نہیں مانتا یا فلاں کام کو میرا جی چاہ رہا ہے۔ شروع سے مختلف تہذیبوں میں انسان کا یہی طرزِ تکلم چلا آرہا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اللہ تعالیٰ کے متعدد فرامین اسی سیاق میں موجود ہیں مثلاً سورة الحج میں ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوجاتیں بلکہ وہ دل (بصیرت سے) اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ایک اور مقام پر یوں ہے ﴿لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها وَلَهُم أَعيُنٌ لا يُبصِر‌ونَ بِها﴾[1] کہ'' اپنے دلوں سے وہ غوروفکر نہیں کرتے، اپنی آنکھوں سے وہ دیکھتے نہیں...'' قرآن وحدیث میں دلوں کو غور وفکر اور تدبر وبصیرت کی صلاحیت رکھنے والا قرار دیا گیا ہے، یہاں قرآنی الفاظ 'قلب' اور 'فواد' کے باہمی فرق کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس جدید سائنس دل کو محض خون پمپ کرنے والا ایک آلہ ہی قرار دیتی ہیں۔ چنانچہ سائنس کی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہوئے بعض اہل علم نے قرآن وحدیث کے اس بیان کو صرف ایک انسانی روزمرہ محاورہ قرار دینے کی بھی جسارت کی ہے، لیکن آج سائنس قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کررہی ہے کہ دلوں کے اندر بھی غور وفکر کرنے والا عصبی نظام پایا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون سے جہاں قرآن کریم کی حقانیت مترشح ہوتی ہے ، وہاں یہ بھی پتہ چلتاہے کہ ایک مسلمان کو اپنا اعتماد اوایقان قرآن وسنت کے بیانات پر ہی رکھنا چاہئے اور سائنس کے کسی موقف کو حرفِ آخر سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ ح م 'قلب' انسانی جسم کا اہم اور کلید ی عضو ہے جو جسم انسانی کی طرح فکر وعمل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے قرآن وحدیث کی نظر میں قلب کی درستی پر انسانی عمل کی درستی کا انحصار ہے۔ قرآن وحدیث میں انسانی دل کو ذہانت کا منبع اور جذبات و احساسات رکھنے والا عضو قرار دیا گیا ہے۔اس دور میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی،اس لیے اُنیسویں صدی تک یہی
Flag Counter