ہے، میں اشارہ ہے کہ ( نومولود کی جانب سے ذبح کیے جانے والے جانور) کا نام عقیقہ مکروہ ہے کیونکہ عقیقہ اور عقوق (مادہ) ایک ہے۔ اور اس جملے ((فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ)) میں توضیح ہے کہ لفظ عقیقہ کو نسیکہ سے تبدیل کر دیا جائے۔ (یعنی عقیقہ کو نَسِیکہ کہا جائے)۔ [1] 2. علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مسئلہ عقیقہ کی توہین اور اس فعل کا سقوط مقصود نہیں ، بلکہ اس سے تو یہ مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کے عقیقہ نام کو ناپسند کیا ہے اور یہ بتلایا کہ اس کا اس سے کوئی اچھا نام یعنی نسیکہ یا ذبیحہ رکھا جائے۔[2] عقیقہ کا حکم عقیقہ آیا واجب ہے، سنّتِ موٴکدہ یا مکروہ عمل ہے؟ اس بارے علماء کے مختلف مذاہب ہیں ، ذیل میں ہم ان مذاہب ہر مذہب کے دلائل، پھر راجح مذہب کی نشاندہی کریں گے : مذہب اوّل : حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ، داؤد ظاہری اور ظاہریہ کا مذہب ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔[3]جس کے دلائل حسبِ ذیل احادیث ہیں : 1. سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی)) [4] ”ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے ( عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔“ امام خطابی بیان کرتے ہیں کہ ’’اس حدیث کے مفہوم کے بارے علما کا اختلاف ہے، چنانچہ احمد بن حنبل کے مطابق اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہو اور وہ بچپن میں فوت ہو جائے تو وہ روزِقیامت اپنے والدین کی شفاعت نہیں کرے گا اور دوسرے قول کے مطابق اس سے مقصود یہ ہے کہ عقیقہ بہر صورت لازم ہے۔ اور نومولود کے لیے |