وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِهَا بِذٰلِكَ أَنَّهُ یُشَّقُّ حَلْقُهَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَةِ عَلى شَعْرِ الـْمَوْلُوْدِ"[1] ”عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔“ الغرض عقیقہ کی بحث میں قول فیصل یہ ہے کہ عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں اور اس کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور، دونوں پر ہوتا ہے اور عقیقہ سے مقصود پیدائش کے ساتویں دن نومولود کے بال مونڈھنا اور اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا ہے۔ عقیقہ کو’ نسیکہ‘ یا ’ذبیحہ‘ کہنا مستحب وافضل ہے! عقیقہ کے بجائے نسیکہ یا ذبیحہ کا لفظ استعمال کرنا افضل ہے اورنو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کو نسیکہ یا ذبیحہ کہنا مستحب اور عقیقہ سے موسوم کرنا مکروہ ہے، جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے جس میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سُئِلَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الْعَقِیْقَةِ؟ فَقَالَ: (( لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ»، وَقَالَ: «مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ، عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مکَافَئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةٌ)) [2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے سوال ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ (لفظ) عقوق ( نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ نام) مکروہ خیال کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرے، لڑکے کی طرف سے برابر دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔‘‘ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ 1. عقیقہ کے متعلق سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ عقوق (نافرمانی) کو نا پسند کرتا |