Maktaba Wahhabi

72 - 111
عقیقہ ایسے لازم ہے، جیسے مُرتہن(قرض کے عوض گروی رکھنے والا) کے ہاتھ میں گروی چیز لازم ہوتی ہے (یعنی جیسے گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو قرض لوٹانا لازم ہے، اسی طرح نو مولود کیلئے عقیقہ لازم ہے) اور یہ قولِ ثانی وجوبِ عقیقہ کے قائلین کے موقف کو قوت دیتا ہے۔ ‘‘[1] 2. سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَةٌ فَأَهْرِیقُوَا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْهُ الْأَذَی)) [2] ”ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، سو اس کی طرف سے خون بہاؤ (عقیقہ کرو) اور اس سے گندگی محو کرو ( یعنی سر کے بال مونڈھ دو)۔“ 3. سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں : (( أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ نَعُقَّ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَیْنِ، وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةً)) [3] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۔“ یہ احادیث دلیل ہیں کہ نو مولود کی طرف سے عقیقہ واجب ہے، کیونکہ عقیقہ کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، نیز "رَهِیْنَةٌ " ( بچہ عقیقہ کے عوض گروی ہے) کے الفاظ نص ہیں کہ عقیقہ واجب ہے اور اسے کسی بھی صورت استحباب پر محمول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جیسے گروی چیز کو قرض ادا کیے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے، اسی طرح نو مولود کی پیدائش کے شکریہ کی ادائیگی کے لیے عقیقہ لازم و واجب ہے۔ مذہبِ ثانی: جمہور علماے کرام کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔[4]امام ابن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : "وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ
Flag Counter