کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے ملکی قانون کی توقیر، مروّجہ عدالتی نظام اور ہمارے جج حضرات کا رویہ ہمارے سامنے اظہر من الشّمس ہوجائے گا۔ 4جنوری 2011ء کو ممتاز قادری نے گورنر پنجاب پرتوہین رسالت کے ارتکابِِ جرم کا دعویٰ کرکے اُسے قتل کردیا جبکہ اسی ماہ کے آخر میں 27 جنوری کو ریمنڈ ڈیوس نے لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر لاہور کے دو معصوم شہریوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ بعد ازاں ریمنڈ کو بچانے کے لئے آنے والی گاڑی کے ڈرائیور نے ایک اور معصوم شہری عباد الرحمٰن کو بھی کچل کر ہلاک کردیا۔ ان دونوں کیسوں پرپاکستان کی عدالتوں کا رویہ کیا رہا، آئیے پاکستان کی عدالتوں کے کردار کا کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں: 1.ریمنڈ ڈیوس کیس کا فیصلہ 2 ماہ سے بھی کم مدت میں یعنی 16/ مارچ 2011ءکو سامنے آگیا جبکہ ممتاز قادری کے کیس کا فیصلہ ہونے کے انتظار میں 10 ماہ کا وقت صرف ہوا، باوجوداس کے ممتاز قادری کا کیس دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھا، جن میں بطورِ خاص تیز رفتاری سے کاروائی مکمل (سپیڈی ٹرائل) کی جاتی ہے۔ 2. ریمنڈ ڈیوس کا تین معصوم انسانوں کو قتل کرنے کا اقدام کھلم کھلا دہشت گردی، رعونت اور تکبّر پرمبنی تھا۔ اس بنا پر ڈیوس کے اقدام کے بعد ہر پاکستانی، امریکی یا غیرملکی شہریوں سے خوف محسوس کرنے لگا۔ عوا م الناس میں عدم تحفظ اور غیرملکیوں کے خلاف نفرت وغصّہ کی شدید لہر پھیل گئی جس کا اظہار وقوعہ قتل اور اس کے بعد کے ایام میں احتجاجات کی صورت میں ہوا جبکہ ممتاز قادری کا اقدامِ قتل ایسے شخص کے خلاف تھا جس پر نہ صرف توہین رسالت کی معاونت کا الزام تھا بلکہ اس نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کی شرعی سزا کو ’کالاقانون‘ قرار دیا تھا۔ اپنی ذاتی زندگی میں وہ اسلام سے منحرف شخص تھا جس کی شہادت اس کے اہل خانہ نے دی۔ اس بنا پر سلمان تاثیر کو شرعی طور پر کسی طرح کلیتاً معصوم شخص نہیں کہا جاسکتا۔ اُس کے اسی متنازعہ کردار کی بنا پر علماے کرام نومبر 2010ء میں اس کے خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ بھی دے چکے تھے۔ اس سے شدید نفرت کا اظہار اس کے جنازے کے موقع پر بھی سامنے آیا کہ لاہور ایسے بھرے پرے شہر میں کوئی نامور عالم دین تو کجا، سرکاری امام بھی اس کا جنازہ پڑھانے کو |