ہوسکی اور موصوف نے ان کی عبارتیں نقل کرنے والوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ۔ اب موصوف کی ان مستند تصریحات کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اُنہوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں کہ احناف کے کلاسیکی موقف کو بعض متاخرین کے فتووں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ موصوف کا ایک اور کرشمہ سب سے پہلے تو لفظ’بعض‘ سے ان کی خیانت آشکار کرتے ہیں کیونکہ ہم نے درجن سے زائد متاخرین فقہائے احناف کے اقوال اوپر نقل کر دیے ہیں، کیا ان کثیر فقہاے کرام پر لفظ ’بعض‘صادق آتاہے ؟ان کثیر فقہائے احناف کے مقابلے میں کئی صدیاں بعد بھی امام شامی رحمۃ اللہ علیہ تنہا نظر آتے ہیں ۔یہ ہے اصل صورتحال لیکن موصوف کا اعجاز دیکھیں کہ اُنہوں نے کثیر فقہاے کرام کو بعض قرار دیدیا اور امام شامی جو تنہا کھڑے ہیں، انہیں کثیر بنا دیا ۔ اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں ؟ اب ان کی طرف سے پیش کردہ ان مستند تصریحات کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اُنہوں نے بزعم خویش احناف کے کلاسیکی موقف کو اجاگر کرنے کیلئے نقل کی ہیں ۔ یہ تمام تصریحات معاہد گستاخ کے بارے میں ہیں ۔سب سے پہلے اُنہوں نے امام طحاوی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ ہمارے فقہا کے مطابق اگر کوئی مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرے تو وہ مرتد ہو جاتا ہے اور اگر وہ ذمی ہو تو اسے سزا تو دی جائے گی لیکن قتل نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘ امام طحاوی بلاشبہ ۳۴۱ھ کے جید فقیہ ہیں۔ ان کی کتاب اختلاف العلماء کا اختصار معروف حنفی ابن جصاص الرازی (۳۸۰ھ) نے کیا ہے جو ’مختصراختلاف العلماء‘ کے نام سے شائع ہو ا ہے۔ امام ابوبکر احمد بن علی الجصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذمی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا دین میں طعن کرنے سے زیادہ براہے ۔ اُنہوں نے لیث کا قول بھی نقل کیا ہے کہ ساب النبی سے نہ مناظرہ کیا جائے اور نہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے بلکہ اسے موقع پر ہی قتل کر دیا جائے اور اسی حکم کا اطلاق یہودی اورنصرانی گستاخ پر بھی ہو گا، لیث ۱۷۵ھ کے عالم ہیں ۔ اس سے واضح ہو جاتاہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس موقف کو تو ان کی کتاب کا اختصار کرنیوالے حنفی فقیہ نے بھی قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد انہوں نے علامہ کاسانی کی یہ تصریح پیش کی ہے کہ اگر ذمی نبی کو بھلا برا کہے تو |