اُس سے اس کا معاہدہ نہیں ٹوٹے گا۔ کیونکہ ایسا کر کے اُس نے سابقہ کفر پر مزید کفر کا اضافہ کیا ہے۔ چونکہ معاہد ہ اصل کفر کے باوجو دقائم رہتاہے اس لیے کفر میں اضافے پر بھی برقرار رہے گا۔ امام طحاوی اور علامہ کاسانی کا یہ موقف کئی وجوہ کی بنیا د پر احناف کے ہاں مقبول نہیں : 1.اوّلاً،ان کا یہ موقف امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے خلاف ہے، جیسا کہ امام محمد کا قول گزر چکا۔ 2. ثانیاً ،متاخرین احناف کی تائید :ان کے اس موقف کو بعد کے احناف نے بھی قبول نہیں کیا۔ علامہ کاسانی ( ۵۸۷ھ ) کے بعد علامہ بدرالدین عینی (۸۵۵ھ)فرماتے ہیں کہ توہین رسالت کی وجہ سے مؤمن کا ایمان نہیں رہتا، ذمی کی امان کیسے باقی رہ جائے گی ؟ کیونکہ مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو کافر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر حاکم ایسا کرے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ اور جو ویسے ہی مجرم اور دین کا دشمن ہو وہ توہین کرے تو اسے کیسے چھوڑ دیا جائے گا؟ اسی طرح محقق علیٰ الاطلاق امام ابن الہمام فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ ذمّی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی یا اللہ تعالیٰ کی طرف غیر مناسب بات منسوب کی اگر وہ مسلمانوں کے عقائدسے خارج ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے جب وہ ان چیزوں کا اظہارکرے گا تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کر دیا جائے گا۔ ان کے علاوہ بھی تقریبا ً تمام متاخرین احناف نے ذمی کا عہد ٹوٹنے کا قول کیا ہے۔ان عبارات کے حوالہ جات ہم نے اوپر نقل کر دیئے ہیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول سونے کے ساتھ تولنے کے قابل ہیں کہ جب توہین رسالت کی وجہ سے مؤمن کا ایمان نہیں رہتا تو ذمی کے لئے امان کیسے باقی رہ سکتی ہے ۔ موصوف کی ایک اور علمی خیانت جناب عمار خاں ناصر نے پرلے درجے کی بددیانتی کرتے ہوئے امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کاایک قول نقل کیا ہے اور اس کے ترجمہ میں بین القوسین (سبّ وشتم کی صورت میں ) کااضافہ اپنی طرف سے کر دیا ہے اور یوں اُنہوں نے جو حکم باغی اور سرکش ذمی کے بارے میں لگایا جو شاتم رسول نہیں ہے، اسے اُنہوں نے علمی خیانت کرتے ہوئے اسے ایسے باغی ذمی پر منطبق کر دیا ہے جو کہ شاتم بھی ہے، اُنہوں نے جو ترجمہ کیا ہے، ہم اسے اصل عبارت کے ساتھ پیش کرتے ہیں: |