Maktaba Wahhabi

73 - 95
تحقیق وتنقید علامہ محمد خلیل الرحمٰن قادری [1] گستاخِ رسول کی سزا اوراحناف کا موقف [شاتم رسول کی قبولیتِ توبہ کا مسئلہ] چند ماہ قبل جب ملعونہ آسیہ مسیح کے ساتھ سابقہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جیل میں ملاقات کی تو قانون توہین رسالت پر ہرزہ سرائی کرنے والے نا م نہاد دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو ایک اور موقع مل گیا کہ وہ اس قانون کو تبدیل کر وانے کا معاملہ پھر سے اُٹھاسکیں۔ اس دفعہ ان حضرات کی پشت پناہی ایک نام نہاد مذہبی سکالر جاوید غامدی نے کی۔اُنہوں نے قانون توہین رسالت پر احناف کے موقف کے حوالے سے اضطراب پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ دراصل اُن کا مقصد یہ تھا کہ وہ قانونِ توہین رسالت پر ہرزہ سرائی اور اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرنے والوں کو بزعم خویش علمی بنیادیں فراہم کریں تاکہ اہل مغرب ہمارے حکمرانوں پر دباؤ ڈال سکیں کہ اس قانون کو تبدیل کرنا اسلام کے اعتبار سے بھی ناگزیر ہے جبکہ جاوید غامدی کی اس خدمت کے عوض خود اُنہیں اہل مغرب کی خوشنودی اور مزید قرب حاصل ہو جائے یا کم از کم وہ ان کا حق نمک ہی ادا کر دیں۔ ان کی ان کاوشوں کے تسلسل میں ان کے ایک شاگرد محمد عمار خان ناصر نے ایک کتابچہ شائع کر دیا جس کا عنوان ہے:’توہین رسالت کا مسئلہ؛چند اہم سوالات کا جائزہ‘ اُنہوں نے اس کتابچہ میں متعد د مقامات پر دروغ گوئی اور کتمانِ حق سے بھی اجتناب نہیں کیا ۔ راقم ناچیز اس زہر ناک کتابچہ کا تفصیلی ردّ لکھ رہاہے تاہم سر دست زیر نظر مضمون میں ان کی وہ آرا زیر بحث ہیں جو اُنہوں نے احناف کے موقف کے حوالے سے اضطراب پیدا کرنے کے لئے تحریر کیں۔ اُنہوں نے اپنے اس کتابچہ میں ایک مقام پر لکھا ہے: ’’جمہور فقہاے احناف کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وقتی کیفیت کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرے اور پھر اس پر اصرار کے بجائے معذرت کا رویہ اختیار کرے تو اس سے درگزر کرنا یا ہلکی سزا دینے پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔ البتہ اگر تو ہین رسالت کا عمل سوچے
Flag Counter