سمجھے منصوبے کے تحت اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے دیدہ و دانستہ کیا جائے یا وہ ایک معمول کی صورت اختیار کر لے تو عدالت کو قتل کی سزا دینے کا اختیار بھی حاصل ہے ۔ ‘‘[1] جمہور فقہاے احناف کا موقف کیا ہے ؟ جمہور فقہاے احناف کے حوالے سے اُنہوں نے جو مذکورہ بالا موقف اختیار کیا ہے، اس کاحقیقت کے ساتھ دو رکا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جمہور فقہاے احناف یہ موقف رکھتے ہیں کہ گستاخ مسلمان ہو یا کافر، اسے لازماً قتل کیا جائے گا۔اس سے قبل کہ جید حنفی فقہا کی تصریحات پیش کی جائیں، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ احناف کا اس مسئلہ پر جمہور فقہا کے ساتھ، جو گستاخِ رسول کو حداً قتل کرنے کا موقف رکھتے ہیں، کیا کوئی اختلاف ہے بھی یا نہیں؟اور اگراختلاف ہے بھی تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور اس کا محل کیا ہے ؟ جمہور فقہا تو مسلمان اور ذمّی یا معاہد گستاخ دونوں کے لئے یہ موقف رکھتے ہیں کہ اُنہیں حداً قتل کیا جائے گا اور نہ تو اُن سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی توبہ قبول کی جائے گی ۔ وہ اسے گستاخی کی حد قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ایسے ملعون کو قتل کرنے کے لئے گستاخی کو ایک مستقل علّت قرار دیتے ہیں جبکہ احناف بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ اسے حد اً قتل کیا جائے گااور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، البتہ وہ مسلمان گستاخ کی صورت میں اس پر حدِ ارتداد و کفر کا حکم بھی لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا موقف دیگر مذاہب کے مقابلے میں اور بھی سخت ہو جاتاہے کیونکہ حنابلہ اور موالک کا موقف اتنا ہی ہے کہ گستاخ مسلمان ایک دین سے دوسرے دین میں داخل نہیں ہوا بلکہ اس نے گستاخئ رسول کی صورت میں ایک ایسا جرم کیا ہے جس کی سزا ان کے نزدیک یہ ہے کہ اسے حد اً قتل کر دیا جائے جبکہ احناف اس پر حد ِارتداد کا حکم بھی لگاتے ہیں لیکن وہ گستاخی کی وجہ سے اسے ’رِدۃ عامہ‘ نہیں بلکہ ’ردۃ خاصہ‘ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک ’ردۃ خاصہ‘ کے مرتکب کا حکم زندیق کی طرح ہے کہ اسے لازماً قتل کیا جائے گا اور اُس کی توبہ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام مالک کے نزدیک گستاخ مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا،اس لیے دنیا میں سزائے موت کے بعد وہ آخرت میں بخشش کا اُمیدوار ہے اور اس کی تکفین و |