Maktaba Wahhabi

75 - 95
تدفین بھی مسلمان کی طرح ہی ہو گی ۔ جبکہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ خاص ارتداد کا مرتکب اور زندیق ہونے کے باعث قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ اگرو ہ تجدید اسلام کے بغیر مرتا ہے تو وہ بخشش کا اُمیدوار نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حد کے اجرا کے بعد اس کی تکفین و تدفین مسلمان کی طرح ہو گی ۔ امام محمد بن سحنون رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح امام محمد بن سحنون رحمۃ اللہ علیہ (وفات۲۶۵ھ)نے موالک کے مذہب کویوں واضح کیا : لم یزل القتل عن المسلم بالتوبة من سبه علیه السلام ،لأنه لم ینتقل من دین إلىٰ دین، وإنما فعل شیئًا حدّه عندنا القتل، لاعفو فیه لأحد کالزندیق ، لأنه لم ینتقل من ظاهر الىٰ ظاهر [1] ’’ نبی علیہ السلام کی گستاخی سے مسلمان کا قتل توبہ سے زائل نہیں ہوتا کیونکہ وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نہیں منتقل ہوا جبکہ اس نے ایک ایسا عمل کیا، ہمارے نزدیک جس پر قتل بطورِ حد ہے اور اسے کوئی معاف نہیں کر سکتا، جیسے زندیق کوکیونکہ یہ بھی ظاہر سے ظاہر کی طرف منتقل نہیں ہوا۔‘‘ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کے موقف کو جمہور فقہا کے موقف ہی کے مثل قرار دیتے ہوئے یہ فرق بیان کیا ہے کہ احناف گستاخِ رسول کو مرتد بھی قرار دیتے ہیں جبکہ سب کے نزدیک دنیا میں تو اس کی سزا بہر حال یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول کیے بغیر اسے قتل کر دیا جائے ۔امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا یہ قول یوں نقل کیا ہے: وقد قال القاضی عیاض رحمه الله بعد أن حکیٰ قتله عن جماعة ثم قال: ولا تقبل توبته عند هٰؤلاء، وبمثله قال أبوحنیفة وأصحابه، والثوري وأهل الکوفة والأوزاعی في المسلم کلهم قالوا: هی ردة ورویٰ مثله الولید بن مسلم عن مالك وقال بعد ذلك: ذکرنا الإجماع علىٰ قتله، ومشهور مذهب مالك وأصحابه وقول السلف وجمهور العلماء قتله حدّا لا کفرًا إن أظهر التوبة ولهٰذا لاتقبل التوبة عندهم ’’قاضی عیاض رحمہ اللہ ایک جماعت سے حکم قتل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں، ان کے ہاں ان کی
Flag Counter