توبہ قبول نہیں۔ اسی کی مثل امام ابو حنیفہ ،ان کے اصحاب ،امام ثوری ،اہل کوفہ اور اوزاعی نے مسلمان گستاخ کے بارے میں کہا اور ان تمام نے فرمایا: یہ ارتداد ہے۔ اس طرح کی بات ولید بن مسلم (ت۱۹۵ھ)نے امام مالک سے بھی نقل کی ۔ امام مالک اور ان کے اصحاب کا مشہور مذہب،قولِ سلف اور جمہور علما کہتے ہیں کہ یہ قتل بطورِ حد ہے نہ کہ بطورِ کفر، اگر چہ وہ توبہ کا اظہار کرے اور اسی لئے ان کے ہاں توبہ قبول نہیں ۔ ‘‘[1] فقہاے احناف کی تصریحات اب ہم فقہاے احناف کی تصریحات پیش کرتے ہیں : 1.فقہ حنفی کے بڑے امام ابو العباس احمد بن محمد بن ناطفی حنفی (ت۴۴۶ھ) نے اپنی کتاب ’اجناسِ ناطفی‘ میں لکھا ہے جسے دسویں صدی ہجری کے عظیم حنفی امام قاضی عبدالعالی بن خواجہ بخاری نے اپنی کتاب فتاوی ’حسب المفتین‘میں ذکر کیاہے۔ آپ لکھتے ہیں : أمّا اذا سبَّ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أو واحد من الأنبیاء علیهم السلام یقتل حدًّا ولا توبة له أصلا سواءً بعد القدرة والشهادة أو جاء تائباً من قبل نفسه کالزندیق لأنه حدّ وجب فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحدّ القذف وبخلاف الارتداد لأنه یتفرد به المرتد لا حَقّ فیه لغیره من الآدمیین و لهٰذا قلنا إذا شتمه صلی اللہ علیہ وسلم سَکران لا یعفی ویقتل أیضًا حدًّا ’’جب کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی نبی کو گالی دی تو اُس کو حداً قتل کیا جائے گا خواہ حراست میں لیے جانے یا گواہی کے بعدوہ گستاخ توبہ کرے یا خود بخودتو بہ کے لئے پیش ہو جائے، اسے زندیق کی طرح ہر حال میں قتل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ قتل اس گستاخ کی حد ہے پس توبہ سے ساقط نہیں ہوگی جیسا کہ آدمیوں کے باقی حقوق جس پر حق ہو، اس کی توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جیسا کہ حد قذف ہے ۔ گستاخ کا مسئلہ عام مرتد جیسا نہیں ہے کیونکہ عام مرتد کا فعل اسکا انفرادی فعل ہے جس سے کسی آدمی کا کوئی حق متاثر نہیں ہوتا (لہٰذا اس کی توبہ قبول ہے مگر گستاخ کی توبہ قبول نہیں ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق متاثر ہوا ہے ) اسی لیے کسی نے حالتِ نشہ میں گستاخی کی پھر بھی اسے معاف نہیں کیا جائے گا اور حد اً ہی قتل کیا جائے گا ۔ ‘‘ اس کے بعد اُنہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے : |