هٰذا مذهب أبي بکر الصدیق رضی الله تعالىٰ عنه والإمام الأعظم ’’یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے ۔ ‘‘[1] اسی مقام پر امام عبد المعالی بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ علم الہدیٰ کی’البحر المحیط‘ سے نہایت قابل غور اقتباس نقل کیا ہے : مَن شاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم أو أهانه أوعاب في أمور دینه وفي شخصه أو في وصف من أوصاف ذاته سواءً کان الشاتم مثلاً من أمته أومن غیرها، وسوآء کان من أهل الکتاب أو غیره، ذمیًّا کان أو حربیًّا، وسوآءً کان من أهل الکتاب الشتم أو الإهانة أو العیب صادرًا عنه عمدًا أو قصدًا أو سهوًا وغفلته أو حبًّا أو هزلاً فقد کفر خلودًا بحیث إن تاب لم یقبل توبته أبدًا لا عندالله ولا عند الناس وحکمه في الشریعة المطهرة عند متاخري المجتهدین إجماعًا وعند أکثر المتقدمین القتل قطعًا. ولا یداهن السلطان أو نائبه في حکم قتله، أفمن فات في قتله وانعدامه المصالح الدینوية کقتل القضاة والولاة والعمال وإن أهملوا فقد رهنوا بما صدر عنه من الشتم مثلًا وهو کفر فهم رضوا بالکفر والراضی بالکفر والراضی کافر فهم کافرون ’’جس بندے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی د ی یا آپ کی اہانت کی یا آپ کے دین، شخصیت یا اوصاف میں سے کسی وصف کو عیب والا بتایا خواہ یہ گالی دینے والا آپ کی اُمت سے ہو یا غیر،اہل کتاب سے ہو یا غیر، ذمی ہو یا حربی خواہ اس نے گالی/ اہانت یاعیب لگانے کی بات عمداً یاقصداًکی ہو یا سہواً غفلت سے کی ہو ،سنجیدگی سے کی ہو یا مذاق میں ۔پس اُس نے ہمیشہ کا کفر کیا یعنی اگر وہ توبہ کرے توکبھی بھی اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور نہ ہی بندوں کے نزدیک ۔ متاخرین مجتہدین کے نزدیک بالاجماع اور اکثر متقدمین کے نزدیک شریعت میں اس کا حکم قتل ہے۔ بادشاہ یا اس کا نائب اس گستاخ کے قتل میں فریب کار ی سے کام نہ لیں اگر چہ اس گستاخ کو قتل کرنے کی پاداش میں بہت سے دینی مصالح بھی فوت ہو جائیں جیسا کہ قاضیوں ،والیوں اور سرکار ی اہلکاروں کا قتل ہے، پھر بھی بادشا ہ اسے زندہ نہ چھوڑے اور اگرحکومت نے اسے زندہ چھوڑ دیا تو حکمر ان اس کے کفر پر راضی ہو گئے یعنی جو اس سے توہین کا صدور ہوا تھا ،یہ کفر ہے اورکفر پر راضی |