ہونے والا بھی کافر ہوتا ہے پس وہ بھی کافر ہوں گے ۔‘‘ [1] 2. امام ابو بکر رضی اللہ عنہ جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ (ت۳۷۰ ھ )فرماتے ہیں : فإذا ثبت ذلك کان من أظهر سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من أهل العهد ناقضًا للعهد إذ سبّ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من أکثر الطعن في الدین [2] ’’جب یہ ثابت ہو گیا کہ ذمّی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو وہ عہد توڑنے والا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا دین میں طعن کرنے سے زیادہ برا ہے ۔‘‘ 3. مجتہد کی شان رکھنے والے عظیم فقیہ امام ابن الہمام (ت۸۶۱ھ ) جنہیں بجا طور پر محقق علیٰ الاطلاق کہا جاتا ہے، اپنی کتاب’ فتح القدیر‘ میں فرماتے ہیں : کل من أبغض رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولىٰ ثم یقتل حدًّا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه [3] ’’ہروہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل میں بغض رکھے۔ وہ مرتد ہے اور آپ کو سبّ وشتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسے بطورِ حدقتل کیا جائے گا، سزاے قتل کے اسقاط میں اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگرچہ حالتِ نشہ میں کلمہ گستاخی بکا، جب بھی معاف نہ کیا جائے گا۔ ‘‘ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے گستاخ ذمّی اور معاہد کا عہد ٹوٹ جانے اور اُس کے مباح الدم ہونے کا قول بھی کیا ہے : والذي عندي أن سبه علیه السلام أونسبة ما لاینبغی إلىٰ الله تعالىٰ إن کان مما لا یعتقدونه کنسبة الولد إلىٰ الله تعالىٰ وتقدس عن ذٰلك إذا أظهر یقتل به وینتقض عهده [4] ’’میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ( ذمّی) نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی یا اللہ تعالیٰ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی جوکہ( مسلمانوں) کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا،حالانکہ وہ اس سے پاک ہے، جب وہ اس کا اظہار |