Maktaba Wahhabi

79 - 95
کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔ ‘‘ 4. امام محمد بن محمد شہاب کردری حنفی رحمۃ اللہ علیہ ابن بزاز (ت۸۲۷ ھ) نے بھی اس مسئلہ پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے۔ فرماتے ہیں : وزال عنه موجب الکفر والارتداد وهو القتل إلا إذا سبّ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم أو واحد من الانبیاء علیهم الصلوٰة والسلام فإنه یقتل حدًّا ولا توبة له أصلاً سواء بعد القدرة علیه الشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حدّ وجب فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین، وکحد القذف لا یسقط بالتوبة بخلاف ما إذا سبّ الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعالىٰ ولأن النبی علیه السلام بشر والبشر جنس یلحقهم المعرة إلا من أکرمهم الله تعالىٰ والباري منزه عن جمیع المعایب، وبخلاف الارتداد لأنه معنی یتفرد المرتد لا حق فیه لغیره من الآدمیین. ولکنه قلنا إذا شتمه علیه السلام سکران لا یعفی ویقتل أیضًا حدًّا وهذا مذهب أبي بکر الصدیق رضی الله عنه والإمام الأعظم والثوری وأهل الکوفة والمشهور من مذهب مالك وأصحابه. ’’( عام ) مرتد سے کفر اور اِرتداد کا موجب زائل ہو جائے گا مگر جب کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی نبی علیہ السلام کو گالی دی تو اس کو حداً قتل کیا جائے گا خواہ حراست میں لیے جانے یا گواہی کے بعد وہ گستاخ توبہ کرے یا خود بخودتو بہ کےلئے پیش ہو جائے، اسے زندیق کی طرح ہر حال میں قتل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ قتل اس گستاخ کی حد ہے، پس توبہ سے ساقط نہیں ہوگی جیسا کہ آدمیوں کے باقی حقوق ، جس پر حق ہو اس کی توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جیسا کہ حد قذف ہے ۔ بخلاف اس صورت کہ جب اللہ تعالیٰ کی گستاخی کی پھر توبہ کرلی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور نبی علیہ السلام انسان ہیں اور انسان کی جنس کو عار لاحق ہوتی ہے، البتہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے معزز بنایا،باری تعالیٰ ان تمام عیوب سے منزہ ہے، بخلاف ارتداد کے کیونکہ اس میں محض وہی ارتداد ہوتا ہے جس میں کسی آدمی کا حق متعلق نہیں ہوسکتا۔ البتہ ہم واضح کر رہے ہیں کہ جب کسی نے حالت ِنشہ میں گستاخی کی تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا ،اسے بھی حداًقتل کیا جائےگا۔ یہی مذہب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ،ثوری اور اہل کوفہ کا ہے اور یہی مالک اور انکے اصحاب کا مشہور مذہب ہے ۔‘‘ 5. امام خیر الدین ر ملی حنفی (ت۱۰۸۱ھ) لکھتے ہیں کہ ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر
Flag Counter