Maktaba Wahhabi

80 - 95
إذا سبّ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم أو واحدًا من الانبیاء علیهم السلام فإنه یقتل حدّا ولا توبة له أصلاً.... ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین ... هٰذا مذهب أبي بکر الصدیق رضی الله عنه والإمام الأعظم والثوري وأهل الکوفة و المشهور من مذهب مالک وأصحابه [1] ’’جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیا ء علیہم السلام سے کسی نبی کی گستاخی کی تو اسے بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ مقبول نہیں .... اس بارے میں کسی کا اختلاف متصور نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے حق بندہ متعلق ہے تو وہ بندوں کے دوسرے حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوگا.... یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، امام اعظم ابو حنیفہ ،اہل کوفہ کا مذہب ہے اور یہی امام مالک اور آپ کے اصحاب کا مشہور مذہب ہے ۔‘‘ 6. امام زین الدین بن ابراہیم المعروف بہ ابن نجیم حنفی (ت۹۷۰ھ) فرماتے ہیں کہ’ساب النبی‘ کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی: لا تصح ردة السکران إلا الردة بسب النبی فإنه یقتل ولایعفی عنه کذا في البزازية.کل کافر تاب فتو بته مقبولة في الدنیا والآخرة إلاجماعة الکافر بسب النبی، وإذا مات أو قتل على ردته لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقیٰ في حفیرة کالکلب [2] ’’نشہ کی حالت میں ارتداد صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت حالت ِنشہ میں بھی کی جائے تو اسے معافی نہ دی جائے گی جیسا کہ بزازیہ میں ہے۔ہر کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے مگر کافروں کی وہ جماعت جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اُس کی توبہ قبول نہیں .... جب وہ شخص مر جائے یامرتد کے طور پر قتل کر دیا جائے اسے مسلمانوں کے مقابرمیں دفن کرنے کی اجازت نہیں ، نہ اہل ملت (یہودی ، نصرانی ) کے گورستان میں ، بلکہ اسے کتے کی طرح گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘ 7. امام محمد بن عبد اللہ حنفی تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ (ت ۱۰۰۴ھ)اسے حد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : کل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا الکافر بسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم [3]
Flag Counter