Maktaba Wahhabi

93 - 95
تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنی رائے کی بنیاد امام اعظم کے اسی قول پر رکھی ہے۔ کثیر متاخرین احناف نے امام اعظم کے اس قول کے علاوہ متقدمین احناف سے بھی تائید حاصل کی ہے جن میں ۴۴۶ ھ کے امام ناطفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو بکر رضی اللہ عنہ جصاص ( ت۳۷۰ھ) نمایاں طور پر شامل ہیں۔ تفصیلی اقتباسات پہلے نقل کر دیئے گئے ہیں ۔ کیا جید فقہاے احناف نے کلاسیکی حنفی موقف سے انحراف کیا ؟ جناب عمار خاں ناصر نے ان متاخرین احناف کے بارے میں لکھا ہے : ’’ہمارے ہاں چونکہ ایک خاص جذباتی فضا میں بہت سے حنفی اہل علم بھی فقہ حنفی کے کلاسیکی موقف کو بعض متاخرین کے فتووں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس ضمن میں بعض مستند تصریحات نقل کر دی جائیں۔‘‘ [1] ان کا یہ موقف بھی بالکل غلط ہے کیونکہ جن متاخرین کی وہ بات کر رہے ہیں ان کے اقوال ہم نے اوپر نقل کر دیئے ہیں جن میں اُنہوں نے تصریح کر دی ہے کہ یہ مذہب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کاہے۔ یہ متاخرین احناف جن میں ابن الہمام اور ابن نجیم جیسے جید فقہا ے احناف شامل ہیں، ان کے بارے میں موصوف کیا یہ گمان رکھتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ بات بلا تحقیق کر دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر موصوف کے بقول احناف کا کلاسیکی موقف ان کی آرا سے مختلف تھا تو اُنہوں نے یہ بات کیسے لکھ دی کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے ؟ کیا اُنہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ؟ اتنے بڑے حنفی مجتہد اور فقیہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے احناف کے کلاسیکی موقف ( بقول موصوف ) سے کیوں انحراف کیا ؟اور موصوف جو آج کل کے احناف پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ فقہ حنفی کے کلاسیکی موقف کو بعض متاخرین احناف کے فتووں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر موصوف کی یہ بات درست ہے تو اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ آج کل کے ان اہل علم حضرات کو مطعون کرنے کی بجائے ان متاخرین احناف پر یہ الزام عائد کرتے کہ اُنہوں نے موصوف کے بقول احناف کے کلاسیکی موقف سے انحراف کیا ہے لیکن شاید پندرھویں صدی کے نام نہاد محقق کو آسمانِ علم کے ان درخشندہ ستاروں کی بابت کچھ کہنے کی جرأت نہ
Flag Counter