اب غور طلب معاملہ یہ ہے کہ حنفی مذہب کے بانی سراج الامہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کی پیروی کرتے ہیں۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس مذہب کی خود تصریح فرمائی ہے جیساکہ جب خلیفہ ابو جعفر المنصور نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا اور ان سے دریافت کیا کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ قیاس کو حدیث پر ترجیح دیتے ہیں تو اُنہوں نے خلیفہ کو جواباً یہ فرمایا : لیس الأمر کما بلغك یا أمیر المومنین إنما أعمل أولا بکتاب الله ثم بسنة رسول الله، ثم بأقضية أبي بکر وعمر وعثمان وعلي رضی الله عنهم ثم بأقضية بقية الصحابة ثم أقیس بعد ذلك إذا اختلفوا [1] ’’اے امیر المو منین! بات ایسے نہیں جس طرح آ پ تک پہنچی ہے۔ بلا شبہ میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کر تا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر پھر حضرت ابو بکر، پھر حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے فیصلوں پر پھر دیگر صحابہ کے فیصلوں پر اور اس کے بعد اگر صحابہ میں اختلاف ہو توقیاس کر تا ہو ں ۔ ‘‘ ایک اور مقام پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آخذ بکتاب الله فما لم أجد فبسنة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فإن لم أجد في کتاب الله ولا سنة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، و أدع من شئت منهم ولا أخرج من قولهم إلىٰ قول غیرهم [2] ’’مجھے جب کوئی حکم خدا کی کتاب سے مل جاتا ہے تو میں اسی کو تھام لیتاہوں اور جب اُس میں نہیں ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تھا م لیتا ہوں اور جب کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ( دونوں ) میں نہیں ملتا تو میں صحابہ کے قول ( اجماعِ صحابہ ) کی پیروی کرتا ہوں اور ( ان کے اختلاف کی صورت میں )جس صحابی کا قول چاہتاہوں قبول کر لیتا ہوں اور جس کا چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں مگر ان سب کے اقوال سے باہر جا کر کسی کا قول نہیں لیتا۔‘‘ امام اعظم کے ان اقوال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ صحابہ کرام کے اجماع کی پیروی کرتے تھے، اس لیے ان سے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ اجماعِ صحابہ کے خلاف قول کریں ۔چنانچہ امام اعظم کا اس مسئلہ پر وہی قول معتبر قرار پاتاہے جو کثیر متاخرین احناف نے |