کافر ہو جائے گا اور اس کی میراث مسلمانوں کے لئے ہوگی ، اسے غسل نہیں دیا جائے گا ۔ اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی جائے گی اور نہ ہی اسے کفن دیا جائے گا۔ ہاں اس کا ستر ڈھانپ دیا جائے گا اور اسے پیوند ِخاک کر دیا جائے گا جیسے کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ لہٰذا جن چند احناف نے گستاخِ رسول پر ردۃ عامہ کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی قبل الاخذ توبہ کی قبولیت کو ماناہے، ایک تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ پھر وہ بھی بعد الاخذ توبہ کو نہیں مانتے جبکہ در حقیقت توبہ اور اس کی قبولیت کا معاملہ تو بعد الاخذ ہی شروع ہوتا ہے ۔گویا احناف کے مابین اختلافات کی حدیں سمٹ جاتی ہیں اور نتیجۃً تمام احناف ہی گستاخ مسلمان کی توبہ کو قبول نہیں کرتے اور اسے لازماً قتل کرنے کا ہی موقف رکھتے ہیں ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے دو اقوال یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مفتی ابو السعود حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا قول سے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف سامنے آتاہے کہ گستاخ مسلمان کی توبہ قبول کی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا جبکہ کثیر فقہاے احناف نے امام اعظم کا دوسرا قول ذکر کیا ہے جسے ان کی اپنی عبارتوں میں اوپر نقل کر دیا گیا ہے جس کے تحت گستاخ رسول کی توبہ قبول نہیں ہے اور اسے لازماً قتل کیا جائے، لہٰذا یہ بات بالکل واضح اور آشکار ہے کہ اس مسئلہ پر امام اعظم سے دو متعارض اقوال نقل کیے گیے ہیں، اگرچہ اوّل الذکر قول کو بہت کم احناف نے نقل کیا ہے جبکہ کثیر احناف نے ثانی الذکر قول ہی نقل کیا ہے۔ امام ابن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ کی تطبیق ان دونوں اقوال میں امام ابن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تطبیق فرمائی ہے : ’’اس سے بہت کم گستاخی پر بھی ایسے شخص کے قتل پر اجماع ہے البتہ جو امام شافعی اور امام اعظم ابو حنیفہ سے دوسرا قول یہ مروی ہے کہ یہ ارتداد ہے اور ایسے شخص کا قتل لازم ہے مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے اور اسی کی مثل امام مالک سے ایک ضعیف قول منقول ہے اوران کا یہ مشہور مذہب نہیں ،ان کا مشہور مذہب قتل ہے اور اس سے توبہ کا مطالبہ بھی نہیں کیا جائے گا۔‘‘ پھر فرماتے ہیں : وهنا بحث وهو لا یخلو ما نقل من الإجماع أن یکون قبل ما ذکر من الخلاف المتقدم عمن ذکر أو یکون الخلاف متقدما على الإجماع فان کان الخلاف منهم قبل ثم رجعوا إلى الإجماع فلا تاثیر |