توبہ سے قتل کی سزا ساقط نہیں ہوگی گویا اس موقف کے مطابق توبہ اور تجدید اسلام کے بعد بھی وہ قتل ہی کیا جائے گا لیکن اسے دو فوائد حاصل ہو ں گے ایک تو یہ کہ قتل کے بعد اس پر کفن ودفن اور وراثت کے حوالے سے مسلمان جیسے احکام کا ہی اطلاق ہو گا اور ثانیاً وہ آخرت میں بخشش کا امیدوار بھی ہوگا ۔ در حقیقت یہ موقف معنوی اعتبارسے کثیر احناف کے مذکورہ بالا موقف کے قریب ہے کیونکہ دونوں کے نزدیک اس کی سزا ساقط نہیں ہوگی اور اسے لازماً قتل کیا جائے گا جبکہ مؤخر الذکر حضرات نے قبل الاخذ اس کی توبہ کو قبول کیا ہے تاکہ اگر وہ خلوصِ دل کے ساتھ تائب ہو کر تجدید اسلام کر لے تو حد کے اجرا کے بعد اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جاسکے اوروہ آخرت میں بخشش کا امیدوار بھی رہے ۔ اس موقف کی وضاحت امام اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے، ملاحظہ فرمائیں : فالمختار أن من صدر منه ما یدل على تخفیفه علیه السلام بعمد وقصد من عامة المسلمین یجب قتله ولا تقبل توبته بمعنی الخلاص من القتل وإن أتى بکلمتی الشهادة والرجوع والتوبة لکن لو مات بعد التوبة أو قتل حدّا مات میتة الاسلام في غسله وصلاته ودفنه و لو أصرّعلى السب وتمادی علیه وأبى التوبة منه فقتل علىٰ ذلك کان کافرًا ومیراثه للمسلمین ولا یغسل ولا یصلى عليه ولا یکفن وبل تستر عورته ویواری کما یفعل بالکفار [1] ’’مذہب ِمختار یہی ہے کہ مسلمانوں میں سے جس شخص سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جان بوجھ کر عمداً کوئی ایسا کلمہ صادر ہو جائے جو اہانت و استخفاف اور تحقیر پر دلالت کر تا ہوتو ایسے شخص کو اس گستاخی کے ارتکاب پر قتل کرنا (اُمتِ مسلمہ پر) واجب ہے اور اس کی توبہ بایں معنی قبول نہ ہو گی کہ اسے سزائے قتل سے چھٹکارا مل جائے) اگرچہ وہ توبہ ور جوع کرے اور توحید و رسالت کی گواہی دیتا پھر ے ۔ ہاں مگر وہ توبہ کرنے کے بعد مر گیا یا بعد از توبہ اس پر حد قتل کا نفاذ ہو گیا تو پھر اس کی موت ( بعض احکام میں ) مسلمانوں کی ہی سمجھی جائے گی ،غسل دینے ،نماز جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے میں۔اس کے برعکس اگروہ گستاخی پر مصر رہے اور اس پر مسلسل کار بند رہے اور اس بنا پر قتل کر دیا جائے تو وہ |