ساتھ متعلق ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر آدمیوں کے حقوق کی طرح حق ہے اور یہی امام ابو حنیفہ اور امام شافعی و دیگر کا صحیح قول ہے ۔‘‘ 4. ان تمام فقہا نے تصریح کردی ہے کہ اُنہوں نے اسے موالک یا حنابلہ کا مذہب سمجھ کر نہیں بلکہ اسے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب سمجھ کر اختیار کیا ہے ۔ بعد الاخذ توبہ بالاتفاق قبول نہیں ! اب ان چند فقہاے احناف کے موقف کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں جنہیں تسامح ہوا اور اُنہوں نے گستاخ رسول پر رِدۃ عامہ کا اطلاق کیا اور اس بنا پر اسکی توبہ کی قبولیت کی طرف گئے ۔ ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گستاخ ملعون کی بعد الاخذ توبہ قبول نہیں کی جائے گی، البتہ قبل الاخذ اس کی توبہ قبول کی جاسکتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں مفتی ابو السعود حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح : فبعد أخذه لا تقبل توبته اتفاقًا فیقتل. وقبله اختلف في قبول توبته وعندأبي حنیفة تقبل فلایقتل وعند بقية الأئمة لاتقبل ویقتل حدًا[1] ’’گستاخِ رسول کی توبہ بعد الاخذ بالاتفاق و بالاجماع قبول نہیں کی جائے گی بلکہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔قبل الاخذ اس کی توبہ کے قبول ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام اعظم کے نزدیک اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا جبکہ باقی ائمہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اسے بطورِ حد قتل کر دیا جائے گا۔ ‘‘ پھر قبل الاخذ توبہ کی قبولیت کا موقف رکھنے والے بھی دو طرح کے ہیں: ایک کا موقف یہ ہے کہ گستاخِ رسول کی حد توبہ اور تجدید اسلام سے ساقط ہو جائے گی اور مجرم کو چھوڑ دیا جائے گا، جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ اس کی توبہ سے حد ساقط نہیں ہوگی ا ور اسے لازماًقتل کیا جائے گا۔ البتہ اگروہ گستاخ حد کے اجرا سے پہلے تائب ہو جائے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے تو حد کے اجراکے بعد اس کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ کیا جائے گا(یعنی اسکے کفن ،دفن اور وراثت کے معاملات) اور اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے تو اسے کفر وارتداد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور قتل کے بعد اس پر مشرکین کے احکام جاری ہوں گے۔ |