Maktaba Wahhabi

87 - 95
اپنا لیا ۔ کیونکہ ان تمام جید فقہاے کرام نے احناف کے اصل موقف سے سرمو بھی اختلاف نہیں کیا ۔ ان کے فتاویٰ ہم نے اوپر نقل کر دیے ہیں جن سے چند امور بالکل واضح ہو جاتے ہیں : 1.اُنہوں نے گستاخِ رسول کو حنابلہ اور موالک کے موقف کے برعکس مرتد ہی قرار دیا ہے البتہ انہوں نے احناف کے اصل موقف کے مطابق اس پر ردۃ خاصہ کا اطلاق کیا ہے ۔ 2. اُنہوں نے ردۃ خاصہ کی وجہ سے اسے زندیق قرار دیا ہے اور اسے لازماًقتل کرنے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنے کا موقف اختیا ر کیا ہے جبکہ موالک اور حنابلہ اس لیے توبہ کو قبول نہیں کرتے اور اسے لازماً قتل کرنے کا موقف رکھتے ہیں کیونکہ وہ اسے گستاخی پر ایک الگ اور مستقل حد قرار دیتے ہیں جو توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ 3. اُنہوں نے جہاں حداً قتل کرنے کی بات کی ہے وہاں یہ تصر یح بھی کی ہے کہ اس سے حق آدمی متعلق ہے، اس لیے بندوں کے دوسرے حقوق کی طرح یہ سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوگی ۔ اور یہی امام اعظم اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ کا مذہب ہے۔ ان کا اس سزا کو حد قرار دینا موالک اور حنابلہ کی طرز پر نہیں ہے بلکہ وہ اسے حد ارتداد و کفر ہی قرار دیتے ہیں لیکن ردۃ خاصہ کی بنا پر چونکہ گستاخ ملعون زندیق ہو جاتاہے اور اس سے حق آدمی متعلق ہو جاتاہے، اس لیے اس کی توبہ مقبول نہیں اور اسے عام مرتد کے برعکس ہر حال میں قتل کیا جائے گا تو گویا یہ حد کفرو ارتداد ہوئی ۔ صاحب نسیم الریاض کی تصریح ملاحظہ فرمائیں : (لکن لمعنٰی یرجع) ویعود (إلىٰ تعظیم حرمته) وحفظ مقامه باحترامه وتوقیره یرجع إلىٰ (زوال المعرة) والنقص اللاحق (به وذلك لاتسقطه التوبة) لأنه متعلق بعرضه فهو حق له کحقوق الآدمیین وهٰذا هو القول الصحیح عند أبي حنیفةوالشافعي وغیرهما [1] ’’—البتہ ایسے معنی کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی تعظیم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے احترام اور توقیر کی طرف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیب اور لاحق نقص کے زوال کی طرف لوٹتاہے، اس چیز کو توبہ ساقط نہیں کرتی ۔ کیونکہ یہ آپ کی عزت کے
Flag Counter