قرار دیا ۔‘‘ فقہائے احناف کی مذکورہ بالا تصریحات کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی درست نہیں کہ احناف میں سے گستاخ مسلمان یا کافر کی توبہ قبول نہ کرنے اور اسے حداً قتل کرنے کا موقف سب سے پہلے امام ابن بزاز نے اختیار کیا کیونکہ وہ تو ۸۲۷ھ کے فقیہ ہیں جب کہ اوپر نقل کردہ متقدمین احناف کی عبارتوں سے یہ بخوبی واضح ہو رہا ہے کہ یہ موقف امام ابن بزاز سے پہلے کئی متقدمین احناف نے بھی اختیار فرمایا ۔اسی طرح امام شامی کا یہ فرمانا بھی دراصل ان کا تسامح ہے کہ احناف میں سے امام ابن بزاز نے یہ موقف سب سے پہلے اختیار کیا اور بعد میں آنے والے فقہاے احناف نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اس غلط موقف کو اختیار کر لیا ۔کیونکہ اگر ان کی یہ بات درست مان لی جائے تو امام ابن الہمام اور علامہ بد ر الدین عینی جیسے حنفی علماء جو کہ ابن بزاز کے ہم عصر تھے، ان کے بارے میں یہ بدگمانی پید ا ہوتی ہے کہ اُنہوں نے بلا تحقیق اپنے ہی ایک ہم عصر کی تحقیق کو قبول کر لیا حالانکہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کو احناف محقق علیٰ الاطلاق کہتے ہیں اور بلا شبہ ان کا علمی پایہ امام ابن بزاز سے بلند تر ہے، اسی طرح اس بد گمانی کا سلسلہ بعد میں آنے والے فقہا ے کرام تک بھی جا پہنچتاہے جن میں ابن نجیم جیسے محقق بھی شامل ہیں جنہیں ہم ابو حنیفہ ثانی کا لقب دیتے ہیں پھر امام عبد اللہ بن محمد سلیمان حنفی ،حضرت ملا خسرو، امام عبد العالی بخاری ،امام حصکفی ،امام ابن عبداللہ تمرتاشی ، امام خیرالدین رملی رحمۃ اللہ علیہم جیسے جلیل القدر فقہائے احناف کے بارے میں کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس حساس مسئلے پر بلا تحقیق مکھی پر مکھی مارتے رہے۔ ( العیاذ باللہ)جبکہ اُنہوں نے اپنے اپنے انداز میں بڑی مدلل گفتگو کی ہے اورحسب ِضرورت امام اعظم اور متقدمین فقہا ء احناف کے موقف ہی کی توضیح وتشریح بھی کی ہے ۔ ان کی کتب سے جو مذکورہ بالا اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، ان سے ایک عام قاری بھی بخوبی یہ بات اخذ کر سکتاہے کہ ان جید فقہائے احناف نے محض تقلید کے طور پر نہیں بلکہ کتاب و سنت کے دلائل اور تحقیق کی روشنی میں اسے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا موقف سمجھتے ہوئے اختیا رفرمایا ۔ امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا بھی ان کے تسامح پر دلالت کرتا ہے کہ امام ابن بزاز نے حنابلہ اور موالک والا مذہب اختیار کر لیا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے بعد میں آنے والے فقہا: علامہ خسرو ، ابن الہمام ،ابن نجیم ،تمر تاشی اور علامہ خیر الدین وغیرہ نے بھی یہی موقف |